30

قرآن کریم کتاب انقلاب لاریب منشور حیات

وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت ھادی
عرب کی سرزمین جس نے ہلا دی

بندہ مومن دن میں پانچ مرتبہ رب قدوس کے سامنے اھدنا الصراط المستقیم کی صداء لگاتا ہے جس کے جواب میں رب تعالیٰ کا فرمان اے بندہ اگر تو نے ہدایت سیدھی راہ کی پیروی کرنی ہے اس کتاب لاریب کو تھا ۔
اعتصام بحبل اللّٰہ کا تقاضا تمام مسائل کا حل ہے اور ہر دور میں انسانیت کے لیے اترنے والی الہامی تعلیمات اس دور کے اعتبار سے اترتی رہی اور نزول قرآن کریم کے بعد صبح قیامت تک کے انسانوں کے لیے الہامی منشور ،نصاب اسی کتاب مقدس کو ٹھہرا دیا گیا۔

نزول قرآن کریم کے وقت کے عرب معاشرے کا مطالعہ کیا جاۓ تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے اجتماعی و انفرادی طور ہہ وہ کن چیزوں میں مبتلاء تھے ۔اہل عرب کی فصاحت و بلاغت کا زور اک طرف کتاب ھدی کا نزول اس وقت کے بڑے شعراء ،فصحاء،بلغاء حیرت میں مبتلاء ہیں قرآن کریم کا مقابلہ کرنے سے قاصر و فرار نظر آتے ہیں جو فی البدیع اشعار سے محفل کو گرماتے تھے ۔


اس آفاقیت کے سامنے انسانی کلام کی وقعت ہی کیا ہے مگر آج کے اس معاشرے میں جس کا حصہ میں اور آپ ہیں اس کی فکری نشوونما کے لیے بھی اسی قرآنی انقلاب کی ضرورت ہے جو اس مادیت پرست معاشرے کو پاک کر سکے آداب زندگی سے عاری معاشرے کو از سر نو منظم کر سکے ۔جہالت میں ڈوبا معاشرہ اسی قرآنی انقلاب سے بازیاب ہو سکے گا ۔حضرت شیخ الھند رح نے اسیری میں کی گئ فکر کا نچوڑ جن دو باتوں کی صورت میں بتایا ان میں سے یہ ہی قرآن کریم کی تعلیم سے دوری اہم سبب ہے

حضرت نے اپنی باقی زندگی کا مشن اسی قرآنی انقلاب کے لیے وقف کر دیا مکاتب قائم ہوۓ آج ہندوستان میں پھیلے اسلامی مدارس کا نظم اسی کاوش و خلوص کا ثمر ہے آج ملت کا ربط قرآن کریم سے وابستہ ہے ہندوستان کے علماء کرام نے خدمت قرآن کریم جس خلوص سے کی ہے عرب بھی حیراں ہیں وہ سلسلہ حضرت شاہ ولی اللہ رح کا ہو یا دارالعلوم دیوبند ہر ایک نے اسی انقلاب کی راہوں کا ہموار کیا ہے ۔

قرآن کی رو سے رسول اکرم علیہ الصلواۃ والسلام کی بعثت کا مقصد ہی یہی تھا کہ ان کے ذریعے خدا کے دین کو باقی سب دینوں پر غالب کردیا جائے.
اور اسلام، انسانوں کو ایک ایسا نظام حیات دے. جو سب نظاموں سے بہتر اور اعلی ھو.
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کا یہ مقصد اس صورت میں پورا ہوا کہ قیصر و کسری کا نظام، جو ایک حد تک ساری دنیا پر حاوی تھا، پاش پاش ھوگیا. اور انسانیت کو قیصریت اور کسرویت دونوں سے نجات ملی.

ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں اسی سرزمین کا
مولانا ابو الکلام آزاد کے درس قرآن کی شروع میں بہت دھوم تھی ، ملکہ برطانیہ تک کو اسکی شکایت کی گئی تھی ، ہندوستان کے ایک دور دراز گوشے سے ایک مسلمان یہ درس سننے کے لیے آیا لیکن مولانا اس وقت جیل میں ڈال دیئے گئے تھے وہ شخص دھن کا پکا تھا ، اس نے کسی سے پوچھا کہ جیل کیسے جایا جاتا ہے کسی نے بتلایا کہ جیل تو بندا کسی جرم ہی کی پاداش میں جاتا ہے ،

اس نے مجبورا کسی سے مار پیٹ کی اور اس پاداش میں جیل چلا گیا ، یہ چھوٹے درجے کا قیدی تھا اس نے اپنی خدمات خود مولانا کے لیے پیش کردیں اور جب انکی خدمت میں پہنچا تو اپنی خواہش و مدعا کا اظہار کیا جس کے لیے وہ ادھر آیا تھا ، مولانا نے کہا کہ قرآن کے طالب تو بہت سے دیکھے ہیں تجھ سا کوئی نہیں دیکھا ۔۔


اللّٰہ اکبر فہم قرآن کریم کے لیے مسلمانوں میں کیسی تڑپ تھی تڑپ والوں کو یہ واقعہ بھی تڑپا دے گا۔
آج تعلیم کے نام پہ ہماری نسل کے ساتھ جو کلھواڑ ہو رہا ہے یہ اسی لارڈ میکالے منہ کالے طرز کو پروان چڑھانے میں مشغول ہیں جس سے افسرشاہی کو تقویت ملے یہ جانتے اگر فہم قرآن کریم سے یہ قوم وابستگی اختیار کرے گی تو یہ حریت پسندی اختیار کرے گی غلامی کے طوق اتار دے گی قرآن کریم بڑے بڑے جبار و طاغوت کو موم کر دیتا ہے اس کے انقلاب کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا ۔

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوے تارک قرآں ہوکر

کاش آج کا مسلمان اس عروج بلندی و انقلاب کو جان لے تو وہ کبھی کسی سامراجی نظام کے لیے یہ قیمتی زندگی ضائع نہ کرے بلکہ قرآنی نظام کے نفاذ کی تگ و دو ہی اس کی زندگی کا مقصد و محور ہو آج ہم اپنے آپ سے قرآن کریم کے حقوق کے حوالے سے بھی یہ سوال ضرور کر لیں کہیں ایسا نہ ہو روز محشر یہ کتاب مقدس ہمارے خلاف مقدمہ نہ دائر کر دے جہاں ترقی دنیا کے نام پہ ہم کچھ زیادہ ہی مصروف ہو چلے عرصہ بیت گیا اس کتاب ھدایت کو کھولے ہوۓ اس کا فہم اس کی توجہ ۔۔

قرآن کریم کی فریاد کو ماہر القادری رح نے جس انداز سے لکھا ذرا دل پہ ہاتھ رکھ کر پڑھیں تصور کریں اور اپنے ضمیر سے سوال کریں۔۔
قرآن کی فریاد

طاقوں میں سجایا جاتا ہوں ، آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں
تعویذ بنایا جاتا ہوں ، دھودھو کے پلایا جاتا ہوں

جزدان حریر وریشم کے ، اور پھول ستارے چاندی کے
پھر عطر کی بارش ہوتی ہے ، خوشبو میں بسایا جاتا ہوں

جس طرح سے طوطے مینا کو ، کچھ بول سکھاے جاتے ہیں
اس طرح پڑھایا جاتا ہوں ، اس طرح سکھایا جاتا ہوں

جب قول وقسم لینے کے لیے ، تکرار کی نوبت آتی ہے
پھر میری ضرورت پڑتی ہے ، ہاتھوں پہ اُٹھایا جاتا ہوں

دل سوز سے خالی رہتے ہیں ، آنکھیں ہیں کہ نم ہوتی ہی نہیں
کہے کو میں اک اک جلسہ میں ، پڑھ پڑھ کے سنایا جاتا ہوں

نیکی پہ بدی کا غلبہ ہے ، سچائی سے بڑھ کر دھوکا ہے
اک بار ہنسایا جاتا ہوں ، سو بار رولا یا جاتا ہوں

یہ مجھ سے عقیدت کے دعوے ، قانون پہ راضی غیروں کے
یوں بھی مجھے رسوا کرتے ہیں ، ایسے بھی ستایا جاتا ہوں

کس بزم میں مجھ کو بار نہیں ، کس عُرس میں میری دُھوم نہیں
پھر بھی میں اکیلا رہتا ہوں ، مجھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں۔۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں