آج ایک ایسے کم عمر نعت گو شاعر،نقیب اور صحافی کی ادبی خدمات پہ لکھنا ضروری سمجھوں گاجو چھوٹے سے شہر کنگن پور میں پیدا ہوا۔جس نے دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم بھی حاصل کی۔
میٹرک کے بعد دل میں امنگ جاگی کہ ڈاکٹر بنیں لیکن حالات کو کچھ اور منظور تھا۔ بغیر کسی کے تعاون سے ادبی سرگرمیاں ذمہ داری سے نبھا رہے ہیں
۔جس کے راستے میں بے شمار رکاوٹیں آئیں۔انھیں کانٹوں پہ چلنا پڑا تو ادبی خدمت کے لیے وہ چلتے گئے۔میری مراد فیصل نذیر انمول ہیں۔
جنہوں نے ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔اُن کے والد محترم نزیر احمد زاہد ایک عظیم شخصیت کے مالک تھے۔اقبال کے اس شاہین نے ماں بولی پنجابی کی بے بہا خدمت کی
کنگن پور اپنے علاقے کے ساتھ ساتھ پنجاب کا نام خوب روشن کیا۔اُن کی ادبی خدمات میں پنجابی ادب کے بہت سے شمارے مختلف ناموں سے شائع ہوتے رہے
۔اُن کا ایک رسالہ پریت انٹرنیشنل بہت مقبول ہوا۔یہ مردِ مجاہد اپنی ضرورتوں کا گلہ دبا کر ادبی خدمات میں سر گرم رہے وقت گزرتا گیا طبیعت ناساز ہوتی گئی نذیر احمد زاہد صاحب کی
۔2018 کا سال فیصل انمول کی زندگی میں آزمائشوں کے انبار لیے کھڑا تھا۔وہ جوان جس کے دل میں بہت سارے ارمان تھے سب دل میں ہی رہے گے۔اُن کے سر پہ اب باپ کا سایہ نہیں رہا
۔کہ اب کنگن پور ادبی ماحول سے محروم ہو گیا ہے۔ سایہ اٹھ جانے کے بعد فیصل انمول کو اندر سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا حالات نے.بہت ساری ذمہ داریاں تھی جو چھوٹی سی عمر میں نبھانی پڑیں
۔ایک بار تو کنگن پور کی فضا سوگوار ہو گئی۔نذیر احمد زاہد کے ہا تھ سے لگائے ہوئے شجر مرجھانے کا خدشہ ہو گیا فیصل انمول یہ سب دیکھ رہا تھا کہ والد محترم کے جانے کے بعد وہ پہلے جیسی بہاریں نہیں رہیں اُن کے والد محترم ایک ادبی خزانہ چھوڑ کر گئے تھے
۔ادبی ماحول میں پرورش پانے والے فیصل انمول اور اُن کے بڑے بھائی جاوید ساحر نے ادب کی پھر ایک شمع جلا دی۔ وہاں سے پھر ایک سلسلہ چل نکلا.جسے پنجابی ادبی سانجھ کے پلیٹ فام پر دوبارہ شمع روش کرنا پڑی
۔فیصل انمول کو یہ کریڈٹ حاصل ہے کہ انھوں نے ادبی ماحول میں آنکھ کھولی ہے۔اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر ادب کی خدمت میں لگے ہیں۔ڈاکٹر بنے کا خواب ادھورا رہے گیا
۔اللہ پاک نے انھیں ایک عظیم استادِ نقیب عابد حسین خیال جیسی شخصیت سے نوازا۔بہت سارے ایوارڈ اور گولڈ میڈل اپنے نام کر رکھے ہیں۔ اُن سے نقابت سیکھنے کے بعد اسلامی محفلوں میں نقابت میں اپنا ہی الگ نام پیدا کیا
جو کافی حد تک مشکل تھا.اور شاعری اور باقی فن اپنے والد صاحب سے ہی عطا ہوئے۔پنجابی ادب کی خدمت میں لگے ہیں اُن کے اشعار پنجابی میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔
سجن بے اتبارے سن
جنے وی سن سارے سن
اسی طرح پنجابی ادب کی خدمت کا سلسلہ چل پڑا ہے انھیں بہت سے اعزازات سے نوازا گیا ہے ان کی تمام ادبی خدمات کے ساتھ ساتھ خلقِ خدا کی خدمت بلڈ ڈونیشن جیسی خدمت نے علاقے میں اُنھیں ایک الگ پہچان بخشی 2019 میں رب العزت کی نظرِ کرم ہوئی اور وہ روزہ رسول پہ حاضری کیلئے روانہ ہوِئے
۔ حال ہی میں انھیں تحریکِ اصلاح معاشرے کی طرف سے بلھے شاہ گولڈ میڈل سے نوازا گیا ہے۔وہ اپنی روزمرہ زندگی کے ساتھ ساتھ ادبی خدمات کو بھی لے کر چل رہے ہیں
جن میں اُن کا ساتھ دینے والوں میں اُن کے بڑے بھائی جاوید ساحر اور امجد نذیر کا بھی نام آتا ہے اتنی کم عمر میں اتنی بڑی ذمہ داریاں داد کی مستحق ہیں اُن کی ادبی خدمات قابلِ ستائش ہیں
۔اپنے والد کی طرح اپنی ضروریاتِ زندگی کا گلہ دبا کر وہ ادبی خدمت میں سر گرم ہیں پنجابی کے مشاعرے محفلیں فیصل انمول کی شاعری انڈیا پنجاب اور پاکستان پنجاب کے بہت سارے اخبارات کی
زینت بنی اور ان کی غزلیں ریڈیو جرمنی اور ریڈیو ایف ایم 88پر بھی پڑی گی۔ان کا کہنا تھا اچھا شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اچھا انسان ہونا بھی ضروری ہے۔ماں بولی پنجابی کو اُجاگر کرنے کی کاوشیں
۔پنجابی ادبی سانجھ،زاہد فن فیر اکیڈمی،ایف بی ویلفیر ٹرسٹ۔ایسی بہت سی کاوشوں پہ اُن کی خدمات سراہی گئی ہیں اس طرح ادب کی خدمت کرنے والے جو اپنی مدد آپ کے تحت چل رہے ہوں۔ان سے کسی کا درد یا رونا بھوک سے دیکھا نہیں جاتا،اس لیے ان کی غزل کا ایک شعر ہے
بھکھے ننگے لیکھاں ہارے بابل دے
نکرے بیٹھے بال سی تاں تے رویاں واں
فیصل انمول اردو اور پنجابی دونوں میں شاعری کرنے کی مہارت رکھتے ہیں ساتھ ساتھ پینٹرز‘فوٹو گرافر اور بہت اچھے کالم نگار ہیں اور نعت خوانی میں بھی اچھا خاصہ نام پیدا کررکھا ہے
چھوٹی سی عمر میں بہت بڑے بڑے کام کرچکے ہیں ان کا یہ بھی کہنا تھا (جب اللہ کے پاس جاوں تو ضرور کہے اس کو چند سال دئیے تھے زندہ رہنے کیلئے یہ صدیاں جی کر آیا ہے)
اُن کی ادبی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔جو جگہ جگہ ادبی مشاعرے منعقد کر کے پنجابی زبان کی خدمت کر رہے ہوں۔بہت سارے شاعر سنگر ادیب نعت خواں ان کے والد کے شاگرد رہے ہیں
۔جو لوگوں کے دلوں میں پنجابی کی قدر کے شجر اُگا رہے ہوں۔فوٹو گرافی کے پیشے سے اپنے گھر والوں کا پیٹ پال رہے ہیں ساتھ ساتھ خدمت انسانیت کی خدمت کررہے ہیں
دنیا اُتے رہے کہ جہڑا رب تے خلقت راضی کردا
مویاں پچھوں بلدے رہندے دیوے قبراں اُتے
ایسے باہمت لوگوں کے ساتھ تعاون سے گُریز نہیں کرنا چاہے ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی رہنی چاہے تاکہ ادبی خدمت کا جذبہ اُن میں زندہ رہے اور وہ پہلے سے بہتر ادبی خدمات انجام دیں۔
فیصل نذیر انمول اپنی ضروریاتِ زندگی کا گلہ دبا کر ادب کی خدمت کر رہے ہیں اُن کو اس محنت کا ثمر ملنا چاہے اور میری دعا ہے کہ فیصل انمول اسی طرح ادب کی خدمت کرتے رہے
اللہ پاک اُن کے دل میں ادب کی شمع جلائے رکھے آمین۔ہمارے حکومت پنجاب سے درخواست ہوگی ایسے ادبی لوگوں کیلئے کچھ سوچا جائے جن کی ساری زندگی ادب کی خدمت میں گزر گی۔