فکر اقبا ل اورنوجوان نسل

کچھ لوگ تاریخ پڑھتے ہیں اور کچھ لوگ خود تاریخ بن جاتے ہیں‘ تاریخ بننے ولے ان افراد میں ایک بڑا سنہری نام علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ہے۔ جن کی فکر آج کے نوجوان نسل کے لئے مشعل راہ ہے۔ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کی باتیں دل کے دروازے پر دستک دیتی ہیں اور غور و فکر کی زرا سی صلاحیت زندگی بدل دیتی ہے۔ مادیت سے روحانیت اور جہالت سے علمیت کا سفر شروع ہوجاتا ہے۔ انہی باتوں کانام فکر اقبال ہے جس سے نوجوان نسل بالکل دور ہے جو قومیں اپنی نسل کو اپنے اسلاف کا سبق نہیں پڑھاتی ہیں وہ بصیرت سے خالی ہو جاتی ہیں اور ان کی قسمت میں قرضے لینا اور پھر ان قرضوں کے بوجھ تلے آکر مر جانا ہی رہ جاتا ہے۔

ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے معاشرے کو مثبت رُخ سوچنے کی فکر دی ہے اور نوجوانوں کو انقلابی پیغام کی طرف ابھارا ہے۔ انہوں نے اپنی قوم کی رہنمائی کے لئے اپنے مستقبل کی قربانی دینے کو ترجیح دی‘انقلابی شاعری کے ذریعے نوجوانوں میں ایک نئی روخ پھونک دی اور خود بھی عملی طور پر تشکیل ِ پاکستان کے مشن میں شریک ہوگئے۔ پاکستان اس وقت جن نازک حالات سے گزررہا ہے اس میں نوجوانوں کا کردار یقینا بہت اہم ہے اور ڈاکٹر علامہ اقبال نے اپنے کردار سے بھی یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ انہوں نے غلامی کی زنجیروں کو اپنے نوجوانی کے دور میں توڑا اور تورنے کا سلیقہ بھی سکھایا۔

9نومبر یا یوم اقبال منانے کا اہم نکتہ یہ ہے کہ آج ہم آزاد قوم کے افراد ہونے کے ناطے سے اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لئے کس حد تک متحرک ہیں اور نوجوان نسل کس حد تک سرگرم عمل ہے یہی طرز فکر علامہ ڈاکٹر اقبال کا تہذیبی ورثہ ہے ہم جب اپنے کردارو عمل پر تنقیدی نظر ڈالنے کی صلاحیت پیداکر لیں گے تو یقینا قدرت ہمیں آسانیاں عطا کرے گی اور ہم مشکلات پر قابو پانے کی صلاحیت حاصل کر سکیں گے مگر سوال یہ ہے کہ وہ راہ عمل کیا ہے؟ یہی وہ زاویہ نگاہ ہے جو فکر اقبال کے نئے افق دیکھنے کا حوصلہ بخشتا ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر وہ راہ عمل کیا ہے جس سے ہم عصر جدید کے تقاضوں کو نیا رنگ دے سکتے ہیں؟

آج کا پاکستانی نوجوان علامہ ڈاکٹر محمد اقبال اور ان کی فکر سے واقف ہے یا 9نومبر کو چھٹی کے دن کے طور پر مناتاہے کیا پیغام اقبال ہمیں یہی درس دیتا ہے؟ ہمارے معاشرے کے بہترین نوجوانوں کی نسل دولت اور اسٹیٹس کا حصول ہے اس منزل کا اخروی انجام جو بھی ہو دنیوی انجام ایک گمنام موت اور ورثے میں چھوڑی ہوئی جائیداد؟جبکہ ڈاکٹر اقبال کا راستہ یہ نہیں، اقبال نے نوجوانوں کو خدمت کی فکر سے آراستہ کیا ہے اور تصویر کا دوسرا رخ دیکھانے کی کوشش کی ہے”جہاں ہے تیرے لئے تو نہیں جہاں کے لئے“ کے پیرائے میں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ انسان کو رب نے بہترین مخلوق قرار دیا ہے یہ ہمارے لئے عظمت کی دلیل ہے۔

اس لئے ڈاکٹر اقبال نے کائنات کی تسخیرکا کام اپنے شاہین یعنی نوجوانوں کے سپردکیا ہے۔ مسلم نوجوانوں کی زندگی صرف یہ نہیں ہونی چاہیے کہ وہ تعلیم اس لئے حاصل کریں کہ انہیں ملازمت مل جائے یا دولت کمائیں بلکہ ڈاکٹر اقبال نے نو جوانوں کو ان کا ماضی یاد دلاتے ہوئے کہا ہے کہ تمہارے اسلاف نے اس دنیا کی رہنمائی کی ہے اس پس منظر میں علامہ اقبال نے جب مسلمان نوجوانوں کے طرز عمل اور کردار کا جائزہ لیا تو انہیں بے حد صدمہ ہوا، لیکن اقبال ایک باحوصلہ اورپر عزم انسان اپنے تعمیری مقاصد حاصل کرنے کے لئے انہوں نے روطویل تعمیری نظمیں لکھیں جو شکوہ اور جواب شکوہ کے نام سے مشہور ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ
اہم وہ نظم ہے جو نوجواناں اسلام کو مخاطب کرکے لکھی گئی ہے۔ ڈاکٹر اقبال نے محسوس کیا تھا کہ مسلمان نوجوان مغربی تہذیب کا لباس پہن چکے تھے اور اس کردار سے دور ہوگئے تھے جو اسلام کا سرمایہ ہے اس سلسلے میں ڈاکٹر اقبال نے نوجوانان اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں احساس دلایا ہے کہ وہ تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں اور اپنے کردار پر نظر ڈالیں۔علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے زریعے شکست خوردہ قوم کے تن مردہ میں زندگی کی روح پھونک دی اور نوجوانوں کو عمل پر آمادہ کیا۔

پاکستان خوابِ اقبال ہے جس کی تعمیر آج کے نوجوانوں نے کرنی ہے۔ پاکستانی نوجوانوں میں ایک عزم و حوصلہ موجود ہے لیکن انہیں تربیت اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔تعمیر پاکستان کے لئے نوجوانوں کو قلم اور کتاب سے رشتہ استوار کرنا ہوگا۔عملی صلاحیتوں کو فروغ دیتے ہوئے غفلت اور لاپرواہی کے رویے کو ترک کرنا ہوگا یقین۔ا ہم اس معاشرے کی تعمیرکر سکیں گے تعمیر پاکستان ہی ہماری منزل ہے اس منزل تک رسائی ممکن ہے کیونکہ علامہ اقبال کے خواب کی سرزمین یعنی پاکستانی فضاؤ ں میں عدل و انصاف کی بہارکی اساس فکر اقبال ہے جو بزرگوں کے نقش قدم کی پیروی کرنا ہے۔ 9

نومبر کی تاریخ ہر سال کے کیلنڈرپر جلوہ افروز ہوتی ہے۔ اس دن کی اہمیت کے بارے میں آج کانوجوان اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ آج یو م اقبال ہے اور ایک اقبال تاریخ میں تھے کہ جن کو نوجوانوں سے بے تحاشہ امید یں وابستہ تھیں۔ نوجوان ہر قوم کا مستقبل ہیں ان کو شاہین سے تشبیہ دینے کا مقصدصرف یہ ہے کہ نوجوانوں کو اپنی نگاہ اپنے مقصد پر رکھنی ہے جیسے شاہین کی نگاہیں اس وقت تک اس کے شکار پررہتی ہیں جب تک کہ وہ اس کو پانہیں لیتا۔شاہین کے عزائم بہت بلند ہوتے ہیں

یہی عزائم علامہ اقبال نوجوانوں میں دیکھنا چاہتے تھے۔ اقبال کی نظر میں نوجوان قوم کی امید اور یقین ہیں انہی نوجوانوں کے دم سے زندگی کی رونق ہے عزت اور امت مسلمہ کی بیداری ہے ہم تو اتنے خوش نصیب ہیں کہ ہمارے پاس نوجوانوں کی بہترین طاقت و تعداد موجود ہے‘ نوجوان ہماری قوت ہیں مگر افسوس کہ آج کا نوجوان اس بات کو سمجھنے سے قاصرہے وہ غیر ملکی تقلید کو اپنانا چاہتا ہے۔ وہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کو نہیں بلکہ بالی وڈ کو جاننا چاہتا ہے نوجوان کی فقط ظاہریں نہیں بلکہ ان کی تہذیب بھی تبدیل کی جارہی ہے انہیں راحت پسندو کاہل بنا یا جارہا ہے ان کی زندگی کا مقصدصرف دنیاوی عش و عشرت رہ گیا ہے اگر وہ تعلیم بھی حاصل کرتا ہے تو صرف دنیا بچانے کے لئے کرتا ہے۔ آخرت کے لئے نہیں

ڈاکٹر اقبال نے نوجوانوں کو پیغام دیا کہ وہ ہر لحاظ سے مکمل انسان بننے کی کوشش کریں اور اپنے آپ کو ان اوصاف سے آراستہ کرلیں جو خود ان کی نشونما اور ترقی کے لئے ضروری ہیں اور جو عظیم قوم کی تعمیرو تشکیل کے لئے معاون بن سکتی ہیں ڈاکٹر علامہ اقبال کا مثالی نوجواں خودار، تعلیم یافتہ، یقین محکم اور عمل پیہم کی خوبیوں کا حامل نوجوان ہے۔