24

فرزانہ راجہ فلاح و بہبود میں ہر وقت رواں دواں

فرزانہ راجہ ایک چمکتے ہیرے کی طرح فلاح و بہبود کی بے شمار سرگرمیوں میں لڑکپن اور جوانی سے لیکر اب تک اپنا بہترین کردار ادا کر رہی اور ساری زندگی کرتی رہیں گی۔ میری ملاقات فرزانہ راجہ سے زندگی میں کبھی نہیں ہوئی مگر انکا چھوٹا بھائی راجہ ریحان قمر مجھ سے جب بھی ملتا ہے

کالج کی دوستی‘ہمیشہ ساتھ نبھائے

تو انکی کاوشوں اور محنت کی بہت تعریف کرتا ہے۔ آپ کا تعلق چک راجگان تحصیل گوجر خان سے ہے۔
She has completed three years of research based study program with United Nations Institute of Research and Technology in Humanitarian Action and Peace-building.

راجہ ریحان قمر سے جب بات ہوئی تو انہوں نے بہت کچھ بتایا اگر میں یہ سب لکھنا شروع کر دوں تو چار کالموں پر بھی میری تحریر ختم نہ ہو پائے گی۔

فرزانہ راجہ سابقہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف جن کا گاؤں موہری راجگان ہے ان کے آس پاس رہتی ہیں۔ آپ پوٹھوہار ویل فیر تنظیم جو رجسٹرڈ تنظیم ہے اسکی ہیڈ ہیں۔ آپ سیاسی اور سماجی شخصیت کے طور پر جانی پہچانی جاتی ہیں۔ آپ 2002 سے لیکر 2007 تک ایم پی اے بھی رہی۔ اور اب تک اپنے گاؤں اور ارد گرد کے علاقوں کی بے شمار خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ اسکے بعد 2008 میں ایم این اے بن گئی۔

یاد رہے کہ بینظیر انکم سپورٹ کا آغاز کرنے والی بہترین انسان فرزانہ راجہ ہیں اور اس کی چیئرپرسن بھی رہ چکی ہیں۔ اور بینظیر انکم سپورٹ کا سارا نظام انہوں نے سنبھالا جس میں بے شمار افراد کو شاملِ کیا۔

بس مزے کی بات کہ بے نظیر انکم سپورٹ ہر اس شخص کی مدد کرتی ہے جو غریب، یتیم اور بے سہارا ہو چاہے وہ کسی بھی سیاسی پارٹی کا حصہ ہو۔

یہ تنظیم ہر خاندان کے دو بچوں کی تعلیم و تربیت کا بندوست بھی کر رہی ہے۔ یاد رہے کہ یہ تنظیم 80 ہزار خاندانوں کی مدد کر رہی ہے اسکا مطلب ہے کہ 5 کروڑ افراد اس تنظیم کے زیر سایا ہیں۔ اسکے علاوہ یہ تنظیم وسیلہء روزگار اور وسیلہء تعلیم کا بندوست بھی کر رہی ہے۔

فرزانہ راجہ نے اپنے علاقے سے لیکر تحصیل گوجر خان اورتحصیل کلر سیداں میں بےشمار ترقیاتی کام کروائے یعنی ںجلی گیس گلیاں بنوائیں اور بے شمار افراد کو نوکریاں دلوا کر مطمین ہے۔ راجہ ریحان قمر بتاتے ہیں کہ میں آج بھی اپنی بہن کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہوں اور ساری زندگی ایسے ہی کھڑا رہوں گا انشاء اللہ۔ انکا کہنا ہے کہ ہر پارٹی میں بےشمار اچھے لوگ ہوتے ہیں

مگر کچھ اپنے لالچ کے لیے پارٹی میں گھس جاتے ہیں۔ میں اور فرزانہ راجہ اپنی پارٹی کو سپورٹ تو ساری زندگی کرتے رہے گے مگر میں اس شخصیت کے ساتھ کھڑا ہوتا ہوں جس کا کردار بہتر ہو اور جو اس ملک اور عوام کے کندھوں کے ساتھ کندھے ملا کر چلے۔

آج میں جس بہترین انسان کا زکر کر رہا ہوں وہ نہ تو میری پارٹی میں سے ہے مگر اسکا کردار سارے پاکستان کے عوام کو معلوم ہے اور وہ شخص آج کا ایم این اے انجینیر قمر الاسلام راجہ ہے جو ہر انسان کو اپنے برابر سمجھتا ہے۔

فرزانہ راجہ کافی عرصے سے امریکہ کی سٹیٹ جارجیا میں مقیم ہیں مگر وہاں رہ کر بھی پاکستان کی فلاح و بہبود میں بہترین کردار ادا کر رہی ہیں۔ ورلڈ بینک میں 22 ممالک کے ساتھ رفاہ عامہ کا کام کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

آپ وفاقی وزیر اور چیئرپرسن بھی رہ چکی ہیں۔ اور آپ پوٹھوہار کی پہلی وفاقی وزیر ہیں۔ یاد رہے کہ دوران وزارت ملک پاکستان سے ایک بھی تنخواہ اور مراعات نہیں لی۔ پھر کیا ہوا کہ زندگی یکسر بدل گئی۔ انکی ان خدمات کے بل بوتے پر انہیں حکومت پاکستان نے بہت بڑے اعزاز ستارہ امتیاز سے نوازا اور یہ بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔

امریکہ نے بھی فرزانہ راجہ کو بےشمار ایوارڈ سے نواز رکھا ہے۔ ایک دفہ ہوا یوں کہ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن فرزانہ راجہ کی درخواست پر پاکستان آئی اور اس پروگرام کی بہت تعریف کی۔

یاد رہے کہ انکی گاؤں کی گلیاں اور ارد گرد کے علاقوں کو جب میں دیکھتا ہوں تو مجھے یہ اسلام آباد نظر آتا ہے۔ آپ نے ایک کتاب لکھی جسکا ٹائیٹل یہ ہے. Poverty Alleviation through women Employment. آج کل ہہ کتاب میں پڑھ رہا ہوں۔

اپکی یو سی کونتریلہ ہے جو تحصیل گوجر خان میں ہے۔

فرزانہ راجہ جب تک کسی کا کام نہ کر لیں انہی سکون نہیں آتا۔ اپنے کام بعد میں کرتی ہیں اور دوسروں کے کام پہلے کر کے خوشی محسوس کرتی ہیں۔ انسانیت انکے دل و دماغ میں ہر وقت رواں دواں رہتی ہے

۔ آپ جو فرائض پاکستان میں سر انجام دیتی تھیں وہی کام آج کل امریکہ میں کر رہی ہیں۔
اسی وجہ سے امریکہ والوں نے انہیں بےشمار ایوارڈ سے نوازا۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ میرا مالک ہم سب کو فرزانہ راجہ کی طرح ںہتر سے بہترین کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو زندگی کے ہر میدان میں کامیاب فرمائے کیونکہ یہ دنیا تو عارضی دنیا ہے۔

لہزا اس دنیا میں وہ اعمال کریں کہ جب ہم اللہ کے سامنے پیش یوں تو شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ اللہ حافظ۔

اس شہر میں کتنے چہرے تھے
کچھ یاد نہیں سب بھول گئے
وہ شخص کتابوں جیسا تھا
وہ شخص زبانی یاد رہا

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں