127

فارم47

شمالی علاقہ جات کی سیر کے دوران سورج غروب ہوتے ہی ہم تنیوں دوستوں نے آرام کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ آرام ملنے و نیند پوری ہونے پر صبح کا سفر بھی بہترین رہے۔ کوشش تھی کہ بازار کی بجائے پہاڑوں کے دامن میں ہوٹل کاانتخاب کیا جائے۔ دریا کہنار کے کنارے خوبصورت ہوٹل پر نظر پڑی۔

گاڑی روک کر معلومات لینے استقبالیہ پر پہنچے بات چیت کے دوران منیجر صاحب کے لہجہ میں اپنائیت سی محسوس ہوئی تو مادری زبان میں ہی رینٹ حتمی کیا کمرے میں پہنچے بالکونی سے باہر نظر دوڑائی تو اس پاس کے ہوٹلوں کی روشنیاں دریا کی لہروں میں برقی قمقموں کا نظارہ پیش کر رہی تھی ہم دریا کی سریلی آواز اور پہاڑوں سے آنیوالی ٹھنڈی ہواؤں سے ہی لطف اندوز ہو رہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی

دیکھتے ہیں کہ ہوٹل کے منیجر صاحب موجود ہیں کھڑے کھڑے ہی حال و احوال دریافت کرنے لگے ہمارے کہنے پر سامنے کرسی پر ہی تشریف فرما ہو گئے انہوں نے مادری زبان پوٹھوہاری میں بات چیت کا آغاز کیا تو ہمیں بھی خوشی ہوئی، میں نے پہل کرتے ہوئے دوسرے دو دوستوں کا تعارف کرایا کہ یہ میرے بچپن کے دوست ہیں، بسلسلہ روزگار گزشتہ دو دہائیوں سے برطانیہ میں مقیم ہیں،

سال میں ایک بار وطن کی مٹی کی خوشبو لینے پاکستان کا چکر لگا لیتے ہیں، موقع ملنے پر بچپن کی یادیں تازہ کرنے کے لیے ضرور ایک عدد لمبا سفر کر لیتے ہیں، کافی عرصہ بعد ہم نے برف پوش اور سرسبز پہاڑوں میں گرتی آبشاروں، بہتے چشموں اور شور مچاتے جھرنوں اور نیلے پانی کے بہتے دریاؤں سے لطف اندوز ہونے کے لیے شاہراہ قراقرم کا انتخاب کیا،

میرے چپ ہوتے ہی منیجر صاحب دوستوں سے برطانیہ کے معاشی اور معاشرتی حالات کے بارے میں دلچسپی لینے لگے چونکہ دونوں پڑھے لکھے تھے ٹیکسی کا کاروبار ہونے کی وجہ سے ہر طرح کے حالات سے باخبر تھے اور منیجر صاحب کے ہر سوال کا مدلل جواب دے رہے تھے،

میں بھی ان کی باتوں میں محو ہوچکا تھا خاموشی سے ان کی باتوں کو سنے جا رہا تھا اچانک میری طرف متوجہ ہوتے ہوئے گویا کہ آپ تو ان کے تعارف کے بعد خاموش ہی ہو گئے ہوں آپ اپنے بارے میں کچھ بتائیں؟ دوست نے تعارف کرواتے کہا کہ اخبار کے چیف ایڈیٹر ہیں اور اچھے کاروباری بھی ہیں صحافت سے تعلق ہونے کا علم ہونے پر ان کے ہونٹوں سے نکلنے والی مسکراہٹ خوشی سے پورے چہرے پر پھیل گئی ہاتھ ملاتے ہوئے کہا کہ پھر تو آپ اپنے بندے ہیں یہ سن کر میں حیران ہوا میرا ان سے کیا تعلق؟

نام بتاتے ہوئے کہنے لگے آپ نے تو میرا نام ضرور سنا و پڑھا ہوگا؟ تجسس ہوا جاننا چاہا چند لمحے خاموش رہنے کے بعد پھر کہنے لگے الحمدللہ ہوٹل کا مالک ہوں ہمارا خاندان گزشتہ چالیس برس سے علاقائی سیاست میں متحرک ہے میں خود ایک سیاسی عہدہ پر رہ چکا ہوں، تھانہ کچہری کی بجائے شرافت اور انصاف کی سیاست کا داعی ہوں، ہمارے مثبت طرز سیاست سے متاثر نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہمارے گروپ کا حصہ بنی ہوئی ہے جو ہمارے جلسہ و جلوس کو کامیاب کرنے میں ہر اول دستہ کا کردار ادا کرتے ہیں

لیکن ملکی سیاست نے ایسا پلٹا کھایا ہے کہ کچھ عرصہ سے اداروں کے سخت دباؤ کا سامنا رہا، الیکشن میں باقاعدہ حصہ بھی نہیں لے سکے ہمارے گروپ کا امیدوار زیادہ پولنگ اسٹیشنز سے بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتا رہا رات گئے تک ہمارے امیدوار کی جیت سو فیصد یقینی ہو چکی تھی ہم ڈھول بجا کر مٹھائیاں تقسیم اور ہر طرح سے خوشیاں منا کر مطمئن ہو چکے، ہمارے مخالف امیدوار مایوسی سے اپنے ڈھیروں اور انتخابی دفتروں کی لائٹیں بھجا کر اپنے اپنے گھروں کی جانب رفو چکر ہوچکے تھے

لیکن جب صبح اٹھے تو شکست تسلیم کرنے والے امیدوار کے دفتر آباد ہو چکے تھے، ہوائی فائرنگ اور ڈھولوں کی آوازوں نے آسمان سر پراٹھایا ہوا تھا دل و دماغ ساتھ نہیں دے رہا تھا کہ تماشا بنا ہوا ہے جبکہ سارے پولنگ اسٹیشن کے رزلٹ کے فارم 45 کی رپورٹ ہمارے پاس تھی جس میں ہمارا امیدوار اکثریت سے جیت چکا تھا لیکن مخالفین فارم 47 زندہ آباد فارم 47 زندہ آباد کے نعرے لگا کر خوشیاں منا رہے تھے

دلبرداشتہ ہوکر ہوٹل کا انتظام خود سنبھال لیا ہے، لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والے وطن عزیز میں آخر کب تک عوام کی حق تلفی ہوتی رہے گی؟ صحافی صاحب آپ میرے سوال کا جواب دینگے؟
وہ میرے چہرے پر دیر تک دیکھتے رہے شاید میرے پاس اس کا مدلل جواب نہ تھا

لیکن منیجر صاحب کی مایوسی نے مجھے اس شخص کی بھی یاد دلا دی جب ہم نے 2012ء میں اپنے اخبار کا آغاز کیا تھا مجھے یاد ہے ان کا بھی مبارکباد کا اشتہار آیا تھا پھر ہر ایونٹ پر وہ صاحب میڈیا اور علاقہ میں نمایاں رہنے کے لیے متحرک رہتے لیکن مجھے انہیں دیکھ کر اس وقت مایوسی ہوئی جب میں ایک بڑے شاپنگ سنٹر سے خریداری کا بل ادائیگی کے لیے کاؤنٹر پر آیا

تو نوجوان نے السلام علیکم کرتے ہوئے کہا چودھری صاحب آپ کیسے ہیں؟ اس کی مصروفیت کے باعث بل ادائیگی کے علاوہ کوئی زیادہ بات نہ ہو سکی واپس دفتر پہنچا اس کے بارے تحقیق کی پتہ چلا کہ اس نوجوان کے والد محترم اپنے موضع اور وارڈ میں سیاسی کارکن تھے وہ صرف و صرف الیکشن کے دنوں میں متحرک ہوتے پولنک اسٹیشن کی جیت کے لیے اپنی سیاسی پارٹی یا امیدوار کی انتخابی مہم تک ہی دوڑ دھوپ کرتے

بعدازاں آئندہ الیکشن تک سماجی خدمات میں ہی فعال رہتے لیکن والد محترم کی وفات کے بعد اس نوجوان نے والد کا نام زندہ رکھنے کے لیے انکے نقش قدم پر چلتے ہوئے بلکہ دو قدم آگے عملی سیاست میں قدم رکھ لیا اور ملک میں تیزی سے ابھرتی ہوئی سیاسی جماعت میں شمولیت حاصل کی۔ ہاتھ پاؤں مارے، محنت کی پہلے یونین کونسل بعدازاں تحصیل سطح کا سیاسی عہدہ حاصل کرلیا مالی وسائل نہ ہونے کے برابر تھے

صاحب جائیداد ہونے کی وجہ سے لوگوں میں ایک بھرم قائم تھا لیکن سیاست اور پھر عہدہ کے نشہ میں اتنا رس بس گئے کہ اپنا نام اونچا رکھنے کے لیے
باپ دادا کی بنائی زمین و جائیداد کو آہستہ آہستہ فروخت کرنا شروع کردیا اپنا سیاسی سٹیٹس برقرار رکھا اپنا شملہ نیچے نہ ہونے دیا ہروقت دفتر میں سیاسی دوستوں کی محفلوں کی بہاریں لگی رہتیں ہر خوشی و غمی میں ان کی نمایاں نمائندگی ہوتی کھیل کے میدان میں بطور مہمان خصوصی شرکت ہوتی

کھلاڑیوں کو انعامات اور شیلڈز پیش کی جاتی رییں یوں ہی وقت گزرتا رہا پیسے کا بے دریغ ضیاع جاری رہا پھر سیاسی حالات نے پلٹا کھایا کارکنوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تھانہ میں گرفتاری کی فہرستوں میں ان کا بھی نام آیا تو دفتر بند ہوا ساتھی روپوش ہوگئے مزید زمین جائیداد فروخت کے لیے نہ رہی مالی حالات نے ساتھ چھوڑا گھریلو مسائل اٹھ کھڑے ہوئے تو سیاسی بخار اترا ہوش آیا تو بہت دیر ہوچکی تھی

ان کے ساتھی اور دیگر عہدیدار سیاست کے منظر عام سے غائب ہوکر منیجر صاحب کی طرح اپنے کاروبار و دیگر مشاغل میں مصروف ہوچکے تھے فارم 45 والے سٹرکوں اور عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں فارم 47 والے حکومتی مراعات سے مستفید ہورہے ہیں لیکن نوجوان کے پاس ماسوائے ملازمت کوئی آپشن باقی نہ تھا،

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں