127

غزل

میری نظروں سے جو دیکھو زندگی افسانہ ہے
کوئی اپنا ہے یہاں اور کوئی یاں بیگانہ ہے
کل تلک پاگل تھا جو وہ آج کیوں فرزانہ ہے
واہ تو نے عدل کا رکھا یہی پیمانہ ہے
کون ہے تیرے سوا ہر شے میں جلوہ گر ہے تو
کون دانا ہے یہاں اور کون یاں دیوانہ ہے
چشم سے آنسو ٹپکنے لگ پڑے، بے خود ہوئے
خالی جب مے خوار سے دیکھا ترا مے خانہ ہے
جلتا یاسر کو جو دیکھا سب کے سب ٹھہرے وہیں
جل رہا ہوں اس طرح سب کہہ اٹھے پروانہ ہے
میری نظروں سے جو دیکھو زندگی افسانہ ہے
کوئی اپنا ہے یہاں اور کوئی یاں بیگانہ ہے
کل تلک پاگل تھا جو وہ آج کیوں فرزانہ ہے
واہ تو نے عدل کا رکھا یہی پیمانہ ہے
کون ہے تیرے سوا ہر شے میں جلوہ گر ہے تو
کون دانا ہے یہاں اور کون یاں دیوانہ ہے
چشم سے آنسو ٹپکنے لگ پڑے، بے خود ہوئے
خالی جب مے خوار سے دیکھا ترا مے خانہ ہے
جلتا یاسر کو جو دیکھا سب کے سب ٹھہرے وہیں
جل رہا ہوں اس طرح سب کہہ اٹھے پروانہ ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں