قارئین کرام! ملک خداداد پاکستان میں کوئی دن ایسا نہیں آیا جب کوئی چیز مہنگی کی بجائے سستی ہوئی ہو، حکمرانوں کو گالیاں دینا آسان جبکہ اپنے گریبان میں جھانکنا بہت مشکل ہو چکا ہے، آپ سے چند دن قبل کا واقعہ شیئر کرتا ہوں کہ کھجوروں کا ڈبہ لینے ایک مشہور دکان پہ گیا تو اسے ایرانی کھجور کا ڈبہ دینے کو کہا جس میں 10 کلو کھجوریں تقریباً ہوتی ہیں، اس نے ڈبہ دیا تو اس کو کھول کر چیک کرانے کا کہا، جب اس نے ڈبے کو کھولا تو اس میں بالکل مرجھائی ہوئی اور ناقابل طعام کھجوریں موجود تھیں، جس پر اس سے استفسار کیا کہ یہ ایسی کھجوریں کیوں ہیں اور یہ کون کھا سکتا ہے؟؟ تو اس کا جواب تھا کہ ہم تو پیکنگ نہیں کرتے، یہ پیچھے سے پیکنگ ہو کر آتی ہے اور ہم آگے فروخت کر دیتے ہیں، راقم نے اس سے قدرے مہنگی مگر اچھی کھجور خرید لی، اب جس نے کسی دعائیہ تقریب میں کھجور رکھنے کیلیے لے کر جانی ہے تو وہ ڈبہ کھول کر کہاں دیکھتا ہے، جب وہ گھر جا کر ڈبہ کھولے گا تو اس میں سے جو نکلے گا پھر اس وقت وہ اسی کو غنیمت سمجھے گا کیونکہ اب وہ قابل واپسی بھی نہیں اور واپس جا کر نئی لانے سے تو رہا تو اب گزارا کرنا پڑے گا۔ اس وقت جو حالات ملک کے ہو چکے ہیں تو جو مل جائے اسے غنیمت سمجھنے میں عافیت ہے کیونکہ تحریک انصاف کے دور میں مہنگائی مارچ کرنے والوں نے اس ایک سال میں جو تباہی پھیری ہے اس نے اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانوں کو ہاتھ کھینچنے پر مجبور کر دیا ہے، آج بھی ایک صحافی دوست نے پوسٹ لگا رکھی تھی کہ ایک ہفتہ قبل سکول کا رجسٹر خریدا تو اس کا ریٹ 240 روپے تھا اور آج دوبارہ خریدنے گیا تو 400 سے زائد قیمت ہو چکی تھی، یہ تو ایک ہفتہ گزرنے کی بات ہے اب تو صبح سو کر اٹھو تو ریٹ مختلف ہوتے ہیں۔۔ اس وقت مہنگائی جس بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اس نے غریب کے منہ سے نوالا چھین لیا ہے، غریب ایک طرف اب تو متوسط طبقے کا آدمی فاقوں پہ مجبور ہو چکا ہے، چار پانچ فیملی ممبر ہوں تو ان کے کھانے پینے کی اشیاء کا بِل 20 ہزار سے کم نہیں بنتا، گھر کا کرایہ 10 ہزار سے کم نہیں ہے، بجلی گیس کے ہزاروں کے بل، روزانہ گاڑیوں کے کرائے اور پٹرول کے اخراجات نے متوسط طبقے کے آدمی کو ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ہے، سوچ سوچ کر بلڈ پریشر ہائی ہوتا ہے کہ مہینہ کیسے گزریگا، آئے روز خبریں سنتے ہیں کہ غریبی سے تنگ آ کر باپ نے ماں نے اپنے بچوں کیساتھ نہر میں چھلانگ لگا دی، بچوں کو مار کر خودکشی کر لی، سفید پوش شخص اپنی سفید پوشی برقرار رکھنے کیلیے بہت پریشان ہے کیونکہ وہ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتا، غریب تو مانگ کر بھی گزارا کر لیتا ہے مگر متوسط طبقے کا آدمی کیا کرے گا؟؟ ملک کی مجموعی معاشی صورتحال میں نظارہ کچھ اس طرح ہے کہ خزانے میں کچھ ہے نہیں، حکمرانوں کی عیاشیاں کم نہیں ہو رہیں، کچھ سیاسی بونے الیکشن چاہتے ہیں اور اربوں خرچ کر کے اسمبلیوں تک پہنچنا چاہتے ہیں، کچھ سیاسی بونے الیکشن سے فرار چاہتے ہیں، اس صورتحال میں عام آدمی کا کسی کو خیال نہیں، عمران خان کو مہنگائی پہ لانگ مارچ یاد نہیں مگر الیکشن نہ کرانے پہ لانگ مارچ ضرور یاد آتا ہے، تحریک انصاف کے دور میں تھوڑی مہنگائی پہ مہنگائی مکاو مارچ کرنے والے دگڑ دلوں نے مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا دی مگر ابھی تک اس کے مختلف جواز پیش کر رہے ہیں کہ یہ عمران خان کا کیا دھرا ہے، سال میں ان سیاسی دگڑ دلوں نے صرف بیان بازی کی ہے اور اپنی عیاشیاں کی ہیں، مفتاح کے بعد ڈار کے تجربوں نے رہی سہی کسر نکال کر رکھ دی ہے، سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلیے سب کے پاس وقت اور پیسہ ہے مگر عوام کیلیے کسی کے پاس نہ وقت ہے اور نہ پیسہ۔ اور عوام ہے کہ سمجھنے کا نام نہیں لیتی، کوئی عمران خان کو برا بھلا کہتا ہے تو کوئی پی ڈی ایم کو تباہ حالی کا ذمہ دار قرار دیتا ہے حالانکہ یہ سیاسی بونے ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں، عمران خان نے ساڑھے تین سال میں بس چور چور کی گردان رکھی اور ملکی معیشت کو بہتر کرنے اور عوام کی زندگی آسان کرنے کیلئے کوئی خاطر خواہ قدم نہ اٹھایا اور مہنگائی روز بروز بڑھتی رہی معیشت دن بدن گرتی رہی، اب ان نام نہاد تجربہ کاروں نے ایک سال میں ساری کسر نکال کر رکھ دی ہے۔۔ عوام کو سوچنا ہو گا اور ان سے نجات کیلیے ایکا کرنا ہو گا ورنہ یونہی سسکتے رہیں مرتے رہیں۔۔۔ والسلام
163