حضرت شیخ سعدیؒ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص امیرالمومنین حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ ؓ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوا اور ان سے کسی علمی مسئلے سے متعلق دریافت کیاحضرت سیّدنا علی المر تضیٰ ؓ جو کہ حضور نبی کریم ؐکے فرمان کے مطابق کہ میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہے، اس کے علمی مسئلے کا شافی جواب دے دیا۔حضرت سیّدنا علی المرتضیٰؓ کے پاس اس وقت تک محفل میں اور بھی کئی لوگ موجود تھے ان میں سے کسی نے کہا کہ یاامیرالمومنین آپ ؓ کا فرمان بالکل درست ہے لیکن اس سوال کا یہ جواب بھی ہوسکتا تھا۔ حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ ؓ نے اس کی بات نہایت غور سے سنی اور اسے اجازت دی کہ وہ اس مسئلے کا جواب دے۔ اس شخص نے اپنی علمی قابلیت کی بنا پر اس مسئلے کا جواب دیا تو حضرت علی المرتضیٰ ؓ کو اس کایہ جواب پسند آیا۔حضرت شیخ سعدیؒ اس حکایت کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ ؓ کی جگہ کوئی دنیاوی بادشاہ ہوتا تو وہ اس شخص کو اس کی گستاخی کی سزا دیتا کہ اس نے اس کے جواب پر اعتراض کیا۔ عام دنیاوی لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو بزرگوں کے آگے بولنے کو اخلاق سے گری ہوئی حرکت اور گستاخی قرار دیا جاتا ہے لیکن حضرت سیّدنا علی المرتضیؓ نے بجائے ناراض ہونے کے اس شخص کی حوصلہ افزائی کی اور اس کے جواب کو سراہا۔ آپؓ چونکہ غرور و تکبر سے پاک تھے اور جو شخص متکبر ہو وہ کسی دوسرے کی بات خواہ وہ بھلائی کی ہی کیوں نہ ہو سننا گوارا نہیں کرتا۔ اس کی مثال اس پتھر کی سی ہے جس پر خواہ کتنی ہی بارش برسے اس پر پھول نہیں کھلتے اور پھول تو اس زمین پر کھلتے ہیں جو عاجز ہوتی ہے۔حضرت شیخ سعدیؒ اس حکایت میں بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی صاحب منصب کسی ماتحت کی بات جو بھلائی پر مبنی ہو اسے مان لے تو اس سے اس کے منصب میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور اپنی علمی قابلیت کو دوسروں سے اعلیٰ جاننا جب کہ علم کا محور و مرکز صرف اللہ عزوجل کی ذات ہے غرور کی نشانی ہے۔ اللہ عزوجل کو متکبر پسند نہیں اور وہ عاجزی کو پسند کرتا ہے۔ لہٰذا کسی کی اچھی بات کو قبول کرنے سے کسی کی عزت میں کوئی فرق نہیں آتا جیسا کہ حضرت سیّد علی المرتضیٰ ؓ کے قول سے ظاہر ہے حالانکہ وہ شہر علم کا دروازہ ہیں اور آپ ؓ نے دوسرے شخص کی دلیل کو سراہا اور اسے قبول کیا۔
163