ہمارے ملک کا معاشی نظام نہایت بد حالی کا شکار ہے حکومت رو رہی ہے کہ خزانہ خالی ہے اور عوام رو رہے ہیں کہ ہم ٹیکس دے دے کر تنگ آ چکے ہیں۔ مہنگائی روز بروز بڑھ رہی ہے بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے غریبوں کی تعداد بھی دن بدن بڑھ رہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کی آپس میں لڑائی ختم نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے سیاسی استحکام نہیں آرہا، سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک میں معاشی استحکام بھی پیدا نہیں ہو رہا۔
امراء کو تو مہنگائی سے کچھ فرق نہیں پڑتا لیکن غریبوں کا جینا محال ہو چکا ہے ان کو دو وقت کا کھانا بھی پوری طرح میسر نہیں سفید پوش۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں لیکن وہ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے لیکن بہت سے غریب ایسے ہیں جو دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلا لیتے ہیں کیونکہ وہ مجبور ہی اتنے ہو جاتے ہیں کہ اس کے سوا انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔ ملک میں محنت مزدوری کرنے والوں کو کام نہیں ملتا ملازمت تلاش کرنے والوں کو ملازمت نہیں ملتی۔ جس کی وجہ سے لوگ اپنی بنیادی ضروریات پوری نہیں کر پاتے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں جرائم کی شرح بھی بڑھ رہی ہے ظاہر ہے کہ جب کوئی شخص اپنے گھر والوں کی ضروریات پوری نہیں کر سکتا، اپنے بچوں کو بھوک سے بلکتے دیکھتا ہے تو پھر وہ ضروریات پوری کرنے اور ان کو کھانا کھلانے کے لیے جرائم کی دنیا میں نکل جاتا ہے اور یہی آسان طریقہ نظر آتا ہے جس میں اسے کسی کے سامنے ہاتھ بھی نہیں پھیلانے پڑتے اور اس کی ضرورت بھی پوری ہو جاتی ہے۔
ان تمام مسائل کی وجہ سے یہ ہے کہ ہم نے اسلام کے نافذ کردہ معاشی نظام کو نہیں اپنایا کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں لیکن نظام ہم نے سب غیر مسلموں کے اختیار کر رکھے ہیں ہمارے ملک میں سود اعلانیہ طور پر کھایا جا رہا ہے جس سے اسلام نے سختی سے منع کیا ہے اسی طرح زکوۃ کی ادائیگی کا کوئی نظام موجود نہیں ہے صدقہ فطر ادا کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں۔ یہ وہ نظام ہے جس کے ذریعے معاشرے میں دولت کی تقسیم کا توازن برقرار رہتا ہے۔ اگر اسلامی طریقے سے معاشی نظام قائم نہ کیا جائے تو معاشرے میں سود عام ہو جاتا ہے اور صدقات کا کوئی نظام نہیں ہوتا جس کی وجہ سے معاشی تقسیم کا توازن برقرار نہیں رہتا نتیجتا امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتے چلے جاتے ہیں جیسا کہ ہم اپنے معاشرے میں اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
ٍٍملک کے معاشی نظام کو درست کرنا اور اسے اسلامی طریقوں کے مطابق ڈھالنا تو حکومت کا کام ہے لیکن عوام کی بھی بہت سی ذمہ داریاں ہیں جن کو ادا کرتے ہوئے وہ اس میں بہت حد تک بہتری لا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ ہے کہ عوام سود کھانا چھوڑ دیں حکومت نے ایسا نظام بنا رکھا ہے کہ جو سود نہیں کھانا چاہتا اس کے لیے بنکوں میں بھی الگ سے اکاؤنٹ بنائے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح لوگ سود پر قرضہ لینا چھوڑ دیا بینکوں سے قرضے ہرگزنہ نے جو سود پر دیتے ہیں اگر بلا سود قرضہ میسر ہو تو وہ استعمال کریں اگر نہ ہو تو اپنے پیٹ کو تھوڑا سا روک لیں اور اس قسم قرضے ہر گز نہ لیں جن پر سود لگتا ہو۔
اس کے علاوہ عوام کے پاس یہ اختیار بھی ہے کہ وہ اپنی زکوٰۃ پوری پوری ادا کریں اور صحیح مصرف میں اس کو خرچ کریں۔ ہمارے ملک میں عوام کے اندر بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو صاحب نصاب ہیں اور ان پر زکوۃ واجب ہے اگر یہ تمام لوگ اپنی اپنی زکوۃ صحیح وقت پر
صحیح مصرف میں خرچ کریں تو ملک میں غربت ختم کی جا سکتی ہے۔ بہت سے ممالک میں حکومتیں اس بات کی کوشش کرتی ہیں کہ امیروں سے ٹیکس لے کر غریبوں کے دیے جائیں امیروں کو سبسڈی نہ دی جائے صرف غریبوں کو دی جائے لیکن اگر وہ زکوۃ اور صدقہ فطر وغیرہ کے اسلامی احکامات پر عمل کر لیں، تو یہ مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے کیونکہ امیروں سے لے کر غریبوں کو دینے کے لئے اللہ رب العزت نے زکوۃ اور صدقات وغیرہ کا جو نظام رکھا ہے اس پر عمل کرنے سے ممکن ہی نہیں ہے کہ معاشی مسائل حل نہ ہوں۔ کم ازکم اسلامی ممالک کو تو یہ کام کر لینا چاہیے اور اگر حکومت نہیں کرتی تو یہ چیزیں تو عوام کے اختیار میں ہیں کہ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں کہ کون غریب ہیں کون مستحق زکوۃ ہیں انہیں پوری پوری زکوٰۃ اور صدقات واجبہ ادا کریں تو اس طرح حکومتوں کی طرف دیکھنے کی بجائے ہم خود بھی معاشرے میں دولت کا توازن کسی حد تک قائم کر سکتے ہیں۔
اسی طرح رمضان المبارک میں ہم صدقہ فطر پورا پورا ادا کریں اور صحیح مصرف میں خرچ کریں۔ کسی ایسے ادارے کو نہ دیں جو مشکوک ہو اور اسی طرح کوشش کریں کہ بینک بھی آپ کی زکوۃ وغیرہ نہ کاٹیں آپ خود اپنے ہاتھوں سے رمضان المبارک میں صدقہ فطر اور زکوٰۃ دیں۔ کوشش کریں کہ صدقہ فطر رمضان المبارک میں جلد ادا کریں تاکہ غریب عید کے لیے کپڑے یا جو بھی ضرورت کی اشیاء خریدنا چاہتے ہیں وہ باآسانی خرید سکیں۔ اس طرح عوام اللہ رب العزت کے بنائے ہوئے قانون پر عمل کرکے حکومتوں کی طرف دیکھنے کی بجائے خود بھی بڑی حد تک معاشرے سے غربت کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔اس کے لیے مفتیان کرام سے رہنمائی لی جائے اور ان کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق چلیں تو باآسانی یہ کام سرانجام دیا جا سکے گا۔
128