میرا دوست علی اصغر ثمر ساری زندگی مغرب کے بعد گھر سے باہر نہیں رہا۔ جب کبھی ہم کسی پرروگرام کے سلسلے میں ریڈیو، ٹی وی یا آرٹس کونسل یا پاکستان کے کسی شہر میں ہی کیوں نہ ہوں وہ مسافت کے مطابق اپنا ٹائم ٹیبل بنا لیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اندھیرا ہونے سے قبل گھر پہنچ جائے۔ انتہائی ملن ساز، انتہائی صاف گو اور منہ پر بات کرنے والا علی اصغر بے شمار دشمنوں کے ہوتے ہوئے بھی زندہ و تابندہ ہے۔ ڈھیر سارے مسائل اور پریشانیوں کے ہمراہ زندگی کے نشیب و فراز طے کرنے والا معروف شاعر اور ادیب علی اصغر ثمر اپنی مثال آپ ہے۔ ان کا ایک معروف شعر ملاحظہ فرمائیں۔
بے بجا آپ کا خفا ہونا
مجھ کو مشکل ہے آپ سا ہونا
جب وہ گھر جانے کی عجلت میں ہوتا ہے تو دیکھنے والوں کو طرح طرح کے خیالات آتے ہیں کہ شائد اپنے بچوں کے لیے پریشان رہتا ہے اور گھر جانے کیلئے جلدی میں رہتا ہے۔ مگر جب معلوم ہوا کہ وہ اپنی بوڑھی ماں جو بڑھاپے کی دہلیز پر نہ جانے کب سے کھڑی ہیں بالکل ایسے ہی مغرب سے چند لمحے قبل وہ ماں اپنے بیٹے علی اصغر کے انتظار میں گھر کی دہلیز پر کھڑی ہو کر اس کا انتظار کرتی ہے۔ زندگی کا ایک طویل عرصہ ایک لمبی مسافت اس نے اپنے بیٹے کے ساتھ گزاری ہے۔ لہٰذا وہ ذہنی طور پر معذور ہو جانے کے باوجود علی اصغر کے لیے بالکل تندرست ہے۔ جی ہاں میرے اس دوست کی ماں زندگی کے غموں سے چور چور، الجھنوں کے سمندر میں غرق، پریشانیوں کے بھنور میں آسائشوں کی متلاشی خاتون آج بھی اپنے بیٹے کا نام سن کر اس کے چہرے پر زندگی کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ وہ ماں جو نہ تو سن سکتی ہے نہ ہی بول سکتی ہے اور نہ ہی ذہنی طور پر تندرست ہے مگر وہ اپنے بیٹے کا انتظار ایسے کرتی ہے کہ جیسے کوئی ماں سکول جانے والے بچے کا انتظار اس کی واپسی کے وقت کرتی ہے۔ یہ ماں یہ علی اصغر ثمر کی جنت والی ماں بول نہیں سکتی مگر اپنے بیٹے کا نام ہر وقت انکی زبان پر رہتا ہے اور اپنے بیٹے کو علی کہہ کر پکارتی ہے اور اس کے بعد وہ مزید بول نہیں پاتی۔ ایک دفعہ یوں ہوا کہ ہم سب معروف ادیب و شاعر نسیم سحر کے گھر پر بیٹھے تھے۔ اس دن ہم صبح سے اکٹھے نہ جانے کہاں کہاں گھومتے رہے۔ آخری ملاقات سیکرٹری فیض السلام کمپلیکس راجہ فتح خان سے کر کے وہاں پہنچے تو نسیم سحر نے سب کو اپنی آخری کتاب پیش کی۔ ہم نے چائے پی اور آنے والے کئی گھنٹوں کی منصوبہ بندی کے ساتھ وہاں تشریف فرما تھے کہ اچانک علی اصغر کے فون پر گھنٹی بجی تو معلوم ہوا کہ ان کی والدہ گھر کے دروازے پر اپنے بیٹے علی اصغر کا انتظار کر رہی تھی اور اچانک گر کر زخمی ہو گئی۔ بس اتنا سننا تھا کہ ثمر صاحب وہاں سے جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کی آنکھیں نم تھیں اور کہنے لگے شاہد صاحب مجھے جلدی سے گھر لے کر جائیں۔ میں نے انہیں گھر چھوڑا اور اپنی والدہ کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے۔ تقریباً دو گھنٹے کے بعد میں نے ٹیلی فون کیا تو معلوم ہوا کہ ان کی آنکھ کافی زخمی ہو گئی تھی مگر اللہ کا شکر ہے زیادہ نقصان نہ ہوا۔ معصوم سے بچے کی طرح اپنی والدہ کی خدمت کر کے خوش ہونے والا اور ایسے ہی اپنی ماں کے لینے یک دم رو دینے اور رلا دینے والا علی اصغر ثمر انتہائی سلجھا ہوا اور اخلاق کا پیکر انسان ہے۔ ایک دفعہ معروف شاعر فرحت عباس شاہ نے فاطمہ جناحؒ کی پیدائش کے حوالے سے ایک تقریب کا اہتمام کیا تو وہاں جب علی اصغر کی باری آئی تو انتہائی مختصر وقت میں دریا کو کوزے میں بند کر دیا اور آخری جملے میں ملک پاکستان کی بیٹی کے لیے آنسوؤں کے سمندر رواں کر دیئے۔ غلط بات پر فوراً ً ً ناراض ہو جانے والا ثمر واقعی ثمر والا ہی ہے کیونکہ نہ تو وہ کسی کے ساتھ زیادتی کرتا ہے اور نہ ہی زیادتی کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے۔ ہاں البتہ اس کے ساتھ بارہا زیادتیاں ہوئیں مگر چند دن ناراض رہ کر دوبارہ صبر کا پہاڑ ثابت ہو جایا کرتا ہے۔ اس دولت کی پجاری دنیا میں دولت جیسی مقناطیسی شے پر ہر گز توجہ نہ دینے والا یہ آدمی درویش انسان ہے کہ جس نے اکثر عام سا لباس پہنا ہوتا ہے۔ مگر اگر کبھی اس کے ساتھ کسی آج کی دنیا کے بڑے انسان سے ملنے جانا ہو تو معلوم ہوتا ہے کہ خالص اور مخلص افراد کی قدر کرنے والے آج بھی موجود ہیں۔ ایک دفعہ علی اصغر مجھے ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان جناب شیراز لطیف سے ملوانے ان کے دفتر لے گئے۔ یاد رہے کہ شیراز لطیف انفارمیشن کی دنیا کے سینئیرترین شخصیت ہیں۔ یہ وہ دنیاوی مرتبہ ہے کہ ریڈیو پاکستان کے بے شمار ملازمین نے شائد آج تک اپنے ڈی جی سے ملاقات نہ کی ہو۔ یہ رعب و دبدبے والی کرسی پر بیٹھا ڈی جی ریڈیو پاکستان انتہائی نیک اور اصولوں کا پکا انسان تھا۔ کیونکہ انہوں نے علی اصغر ثمر سے ملاقات پر انتہائی خوشی کا اظہار کیا اور چند لمحوں کی ملاقات کئی گھنٹوں پر محیط ہو گئی۔ روزنامہ اوصاف کے چیف ایڈیٹر جناب مہتاب خان سے میری سب سے پہلی ملاقات کروانے والی ہستی کا نام بھی علی اصغر ثمر ہے۔ حضور ؐ کی ذات سے بے پناہ محبت کرنے والا علی اصغر ثمر مجھ جیسے ناچیز سے اس لیے بہت پیار کرتا ہے کہ میں نعت رسولؐ مقبول پڑھتا ہوں اور لکھتا بھی ہوں۔ وہ مجھ سے اکثر نعت سن کر آنسوؤں کے سمندر میں نہا جایا کرتے ہیں۔ جس دن میرا کوئی پروگرام نعت کے حوالے سے ریڈیو یا ٹی وی چینل پر ہو تو مجھے سننے کے بعد ملاقات کرنے پر دوبارہ وہی نعت سننے کے خواہش مند ہوتے ہیں اور میں خود کو خوش قسمت تصور کر کے نعت نگینہ پیش کرتا ہوں۔ نعت رسولؐ کے پہلے شعر پر رو دینے والا علی اصغر اکثر مجھ سے یہ نعت سنتا ہے۔
میرے نبی ص کا جمال دیکھو
نہیں ہے سایہ کمال دیکھو
میں مشکلوں میں سنبھل رہا ہوں
میرے نبی ص کی سنبھال دیکھو
بس اتنا کہنے کی دیر ہوتی ہے اور یوں لگتا ہے کہ علی اصغر مدینے کی فضاؤں کی سیر کر رہا ہو۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ رب علی اصغر کو اولاد کی تمام خوشیاں دیکھنی نصیب کرے۔ وہ رب علی اصغر کو ماں کی خدمت کے عوض جنت حاصل کرنے والا بنا دے۔ آج انکی والدہ اس دنیا میں نہیں ہیں مگر وہ علی اصغر کے آس پاس ہی رہتی ہیں۔ اللہ پاک آپ کی والدہ کو جنت میں اعلی ترین مقام عطا فرمائے آمین۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ میرے اس دوست کا سایہ ہمیشہ اپنے گھر والوں پر قائم و دائم رکھے اور میرے اس دوست کی تمام کاوشیں رنگ لائیں کہ معاشرے میں ایسے افراد بہت نایاب ہوا کرتے ہیں۔
216