250

عقیدہ توحید کی دعوت

رب العالمین!اللہ وحدہ لاشریک نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر تاجدارختم الرسل امام الانبیاء حضورنبی اکرم شفیع اعظم ﷺ تک کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزارانبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا تاکہ انسانیت کوہدایت دی جاسکے ان کی صحیح معنوں میں اصلاح وراہنمائی کرکہ ترجمانی کی جاسکے تاکہ اس انسانیت کے بھٹکے ہوئے لوگوں کوکامل نجات مل سکے اسی لئے اللہ تعالی نے انسانوں کی طرف اللہ کا پیغام پہنچانے کیلئے اس نیک اور عظیم کام کی دعوت دینے کیلئے انبیاء کرام علیہم السلام کومنتخب فرمانے کے بعد ان مقدس ہستیوں کو مبعوث فرمایا جن کی بابرکت باسعادت اورمبارک بعثت ہرزمانہ میں ہوتی رہی جب بھی دنیا میں عدل و انصاف کو پس پشت ڈالاگیا،جب بھی حق وباطل کا فرق مٹایاگیا،جب بھی زمین میں فتنہ فساد کو برپا کیاگیا،جب بھی نظام الہٰی درہم برہم کیاگیا جب بھی انسانیت کے حقوق کو نظر انداز کیا گیا اللہ کی وحدانیت کو بھلا دیا گیا اللہ وحدہ لاشریک کی توحید میں شک وشبہ کی گنجائش پیدا کرکہ بت پرستی کو رواج دیاگیا اس اللہ کواس خالق کو اس مالک کواس رازق کواس حاجت روا کواس مشکل کشاء کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ جب اسکی ذات میں اور صفات میں دوسروں کو شریک ٹھہرایاگیا تو اللہ وحدہ لاشریک کی رحمت جوش میں آئی

انسانیت پررحم وکرم والامعاملہ کرتے ہوئے اس کریم رب نے اپنے محبوب مقرب خاص بندوں کونبی بنا کر دنیائے انسانیت کی طرف مبعوث فرمایا تاکہ نوع انسانیت کوان تمام طرح کی باتوں سے پاک کرکہ خالصتاً ایک اللہ وحدہ لا شریک کی بندگی کی طرف راغب کیاجائے اسی کے درپرجھکایاجائے یہ توحیدکی بنیادتھی جسے تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنا مشن بنایاکہ انسانوں کوشرک سے نکال کرایک اللہ کی بندگی پرکھڑاکیاجائے صحیح عقیدہ کی اصطلاح کرتے ہوئے انسانوں کو مؤحد بنایاجائے اور ہرطرح کی عبادت ومددکیلئے لوگوں کی توجہ اللہ وحدہ لاشریک کی طرف دلائی جائے یہاں تک کہ نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰﷺنے بھی آکر توحید کی دعوت دی توحید کی دعوت دینے سے قبل انبیاء کرام علیہم السلام کے ان لوگوں میں رہنے اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے تعلق واسطہ سے کسی کو کوئی تکلیف ناہوئی لیکن جیسے ہی انبیاء کرام علیہم السلام نے اللہ کاپیغام انسانیت تک پہنچانے شروع کیاایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی توحید پرچلنے کی دعوت دی اللہ کی ہی عبادت کرنے اللہ ہی کومشکل کشاء حاجت روا ماننا بگڑی بنانے والا مدد میں اللہ کو پکارنے کی صدا لگائی

پھرکیا تھا اپنے پرائے ہوگئے جان دینے والے جان لینے والے بن گئے جان وخون کے پیاسے ہوگئے کیوں وجہ یہ نہیں تھی کہ انبیاء کرام علیہم السلام نے ان سے مال و دولت کا مطالبہ کیا ان سے کوئی دشمنی کا اعلان کیا ان سے کوئی ذاتی فائدہ حاصل کرنیکی کوشش کی بلکہ صرف ایک وجہ تھی کہ لوگوعبادت ایک اللہ کی کرو بت پرستی چھوڑ دو مشکل کشاء،حاجت رواء ایک اللہ کو مان لوقرآن مجید فرقان حمید میں بار بار اللہ تعالیٰ نے یہ بات واضح کی کہ جب قومیں بت پرستی میں غرق ہوکرمشرکانہ عقائد رسوم و رواج کوترجیح دیتی ہے تو اس قوم کو زوال،ہلاکت کاسامناکرناپڑتاہے پھرایسی قوموں پر اللہ کاعذاب بھی آیا ہے جس کاتذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے جب ایسی قوموں کے پاس انہیں سمجھانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب انبیاء کرام علیہم السلام بھیجے توانہوں نے انکی بات ماننے کی بجائے انکی تکذیب کی انکا مذاق اڑایا

انبیاء کرام علیہم السلام کی بات ماننے کی بجائے انکی زبانی اللہ کا حکم سننے کی بجائے یہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے اور مختلف
حیلے بہانوں سے حق کی بجائے باطل کوپسندکرتے رہے قرآن مجید میں حضرت نوح علیہ السلام کا متعدد جگہوں پرذکرآیا حضرت نوح علیہ السلام چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے دن رات ان لوگوں کو سمجھاتے ایک اللہ کی عبادت کی طرف متوجہ فرماتے لیکن اس قوم نے جب بت پرستی اور سرکشی میں حدکراس کی توقرآن مجیدنے حضرت نوح علیہ السلام کے الفاظ ذکرکئے ہیں فرمایا اے میری قوم ایک اللہ کی عبادت کرو اس کے سواء کوئی تمہارا معبود ہونے کے قابل نہیں مجھے تمہارے لئے ایک بڑے عذاب کااندیشہ ہے پھران کو پانی کے عذاب میں غرق کردیاگیااس کی تفصیلات قرآن مجید میں ذکرہے اسی طرح قرآن مجید میں قوم عاد اور قوم ہود کا بھی ذکرموجودہے یہ عمان کے قریب رہتے تھے جہاں آج ریت کے میدان کے علاوہ کچھ بھی نہیں نظرآتایہ قومیں دنیاکی تمام نعمتوں سے مالاتھیں زراعت کی زمین انکے پاس تھی چٹانوں میں مضبوط محل نما گھرانکے پاس تھے اللہ نے جسمانی طاقت سے بھی انکو نوازا لیکن اس سب کے باوجود یہ بت پرستی میں غرق تھے

اللہ اور اللہ کے رسول کے حکموں سے انہوں نے بغاوت کی جب ان پر انبیاء کرام علیہم السلام کی باتوں کا تبلیغ کاکچھ بھی اثر نا ہوا تو حضرت ہود علیہ السلام کے الفاظ قرآن مجید نے نقل کئے فرمایا تم گواہ رہو یہ جو تم اللہ کے سواء دوسروں کو اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہواس سے میں بیزار ہوں اسی طرح حضرت ابرہیم علیہ السلام جوعالم انسانیت کے عظیم داعی ہیں جنکی دعوت توحید میں اللہ کی وحدانیت کی گواہی نمایاں ہے جن کوخلیل اللہ کہاگیا کے بارے میں قرآن مجید میں بیان ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے اپنے والدکونہایت شفقت احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے توحیدکی دعوت دی تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے اس سلسلہ کو جاری رکھاحتی کہ نبی آخر الزماں نبی اکرم شفیع اعظم حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰﷺاس سلسلہ کو وسیع کرتے ہوئے قیامت تک آنے والے انسانوں کویہ دعوت توحید پہنچائی اپنے خاندان رشتہ داروں کو اللہ کی بندگی کرنے کی دعوت دی

پھر آپﷺنے دعوت توحیدکے 23 سالہ دور میں ہرقبیلہ ہر فرد تک یہ دعوت پہنچائی آپﷺنے فرمایالوگو اگر کامیابی چاہتے ہو تو کہہ دو اللہ کے سواء کوئی معبود نہیں پھر اس دعوت کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین لیکر دنیاکہ ہر کونے تک پھیل گئے اور اللہ کا پیغام پہنچایاکیوں کہ آپﷺاور آپکی دعوت برحق کسی ایک جگہ یا ایک قوم کے لئے نہیں ہے بلکہ جیسے حضور رحمۃاللعالمینﷺہیں اسی طرح آپ کی دعوت بھی قیامت تک آنے والے انسانوں کیلئے ہے لہذا اس مقدس بابرکت دعوت توحید کا پیغام ہمیں بھی مل چکا ہے ہمیں اسے سمجھنے اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرنی چاہیے ہمیں شرک کے کسی بھی ادنیٰ درجہ میں جانے سے بچنا چاہیے چاہے وہ ذاتی طور پر ہو یا صفاتی طور پر جب ہم ہر نمازکی ہررکعت میں اس بات کااقرارکرتے ہیں یا اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مددمانگتے ہیں تو پھر اس اقرار پرثابت قدم بھی رہنے کی دعا مانگنی چاہیے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں