columns 301

عظیم مجاہد سید حسن نصر اللہ شہید

تحریکوں میں نشیب و فراز آنا ایک معمول کی بات ہے کسی کے آنے یا جانے سے تحریک رکتی نہیں بلکہ ایک وقفے کے بعد ہم نئے ولولے اور جوش کے ساتھ پھر وہ متحرک ہو جاتی ہے تحریک آزادی فلسطین کی بھی یہی صورتحال ہے کبھی اس میں تیزی آجاتی ہے

تو کبھی وقفہ جیسے شیخ یاسین کی شہادت کے بعد تھوڑا وقفہ آیا تو اسماعیل حانیہ شہید نے پھر اس میں ایک نئی جان پیدا کر دی اور تحریک کو اپنی اوج پر لے گے لیکن ان کی زندگی نے بھی وفا نہ کی اور وہ31 جولائی 2024 کو ایران کے اندر غیر متوقع شھادت کا زخم ابھی تازہ ہی تھا

کہ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کو 27ستمبر 2024 کو لبنان ہی میں زیر زمین بینکر پر شدید ترین بمباری کر کے زیر زمین چودھویں منزل میں شہید کر دیا گیا

(رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ میں ملٹری سروسز کے ڈائریکٹر میتھیو سیویل کا کہنا ہے کہ ایک بار جب اسرائیل نے حزب اللہ کے سربراہ کی موجودگی کے مقام کی نشاندہی کر لی تو اس کی فضائیہ کے ایف 15 جنگی طیاروں نے مبینہ طور پر 80 بم گرائے جس سے بنکر تباہ ہو گیا)یہ تحریک آزادی فلسطین کے لیے پے درپے

ناقابل تلافی نقصان ہے لیکن اللہ کرم فرمائے گا اور ان سے بہتر نعم البدل عطا فرمائے گا تحریک آزادی فلسطین کا یہ مرد مجاہد سد حسن نصراللہ 30 جولائی 1960 کو بیروت کے مشرقی حصے کے ایک محلے میں سید عبد الکریم کے گھر میں پیدا ہوئے

بنیادی طور پر ان کا تعلق لبنان کے جنوب میں واقع شہر صور کے گاؤں بارزویہ سے تھا (پیدائش سے لے کر تقریباً 2000 تک تمام واقعات ان کی اپنی خود نوشت سید عزیز سے نقل کیے گے ہیں) ابتدائی تعلیم و تربیت وہیں حاصل کی ستر کی دھائی میں جب لبنان شدید جنگ کی لپیٹ میں تھا تو 1974/5 میں ان کا خاندان جنوبی لبنان میں واقع آبائی گاؤں صور چلا گیا یہاں پر ہی میں نے میڑک کیا

جب ہم نے ہجرت کی اس وقت میری عمر 15 برس تھی ہمارے گاؤں میں اکثریت کمیونسٹ نظریات کے لوگوں کی تھی میرا شروع سے ہی اسلام کی طرف رجحان زیادہ تھا

اس لیے میں نے اپنے گاؤں کے لڑکوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے کی بھرپور کوشش کی اسی رجحان کی بنا پر تحریک امل میں شمولیت اختیار کی جو 1974 کو معرض وجود میں آئی تھی جب لبنان جنگی حالت میں تھا تو گھر سے باہر نکلنا تقریباً ناممکن تھا میں نے اس وقت کو غنیمت جانا اور بہت ساری مذہبی کتابیں پڑھ ڈالیں چودہ پندرہ سال کی عمر میں ہی تقریر کرنی شروع کر دی تھی

مجھے جبہ اور امامہ پہننے کا بڑا شوق ھوتا تھا اکثر میں اپنے والد کا پہن لیا کرتا تھا مجھے علم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا لیکن گھر والے نہیں مانتے تھے آخر کار میں نے انہیں عراق یونیورسٹی میں داخلہ کے بہانے اجازت لے لی آخر کار سید محمد غروی کی کوشش سے میں 15 دسمبر 1975 کو نجف شریف کے لیے روانہ ہو گیا

وہاں پر سید باقر صدر کے حضور پیش ہوا انہوں نے بڑی شفقت فرمائی اور مجھے کچھ پیسے عنایت کیے بعد ازاں میں وہاں پر تعلیم حاصل کرتا رہا اور ہمیں لبنانی ہونے کی بنا پر ہماری عراقی انٹیلیجسز ایجنسی سخت نگرانی بھی کیا کرتی تھی وہاں پر میری ملاقات امام خمینی سے بھی ہوتی رہی

مجھے ہر مہینہ سید باقر صدر دو دینار اور امام خمینی پانچ سے دس دینار دیتے تھے 1979 میں عراق میں حالات کشیدہ ہوئے اور انہوں نے لبنانی طلبہ کو گرفتار کرنا شروع کر دیا

اس کشیدگی کو دیکھتے ہوئے میں نے واپس لبنان آنے کا فیصلہ کیا اور 1979 میں لبنان آ کر بعلبک میں ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی 1982 میں اسرائیل نے ایک بار پھر لبنان پر حملہ کر کے تقریباً پورے لبنان پر قبضہ کر لیا کسی نے بھی مزاحمت نہیں کی سوائے چند تحریک امل کے لوگوں کے انہوں نے بھی بے ضابطہ مزاحمت کی اسی بنا پر تحریک امل دو حصوں میں تقسیم ھو کر غیر فعال بھی ھو گئی

اس طرح ایک نئی بحث نے جنم لے لیا اسی بحث و تمحیص میں ایران کی زیر نگرانی حزب اللہ کا قیام عمل میں آیا اس کی شوریٰ کے پانچ ارکان میں سے تین ایرانی اور دو لبنانی تھے

امام خمینی نے اپنی فورسز کو لبنان جانے کا حکم دیا پاسداران انقلاب کا دستہ احمد متوسلیان کی زیر کمان لبنان آیا لیکن جنگ میں حصہ لینے کے لیے نہیں بلکہ ہمیں ٹریننگ دینے کے لیے ہم اس دستے کے معاون بن گئے میں اور یاسر کورانی لوگوں کی چھان بین کرتے

ان کی فائلیں بناتیانہیں ٹریننگ دلواتے ہم نے اس کے دوسرے گروپ میں ٹریننگ لی ھر علاقے کا ایک مسؤل ھوتا تھا میں بقاع کا مسؤل تھا 1985 میں واپس بیروت آ یا اس وقت یہاں کے مسؤل سید ابراہیم الامین تھے میں ان کا معاون بن گیا ایک سال بعد میں بیروت کا مسؤل بن گیا اور 1988 میں حزب اللہ کی مرکزی کمیٹی کا ممبر اور اجرائی کمیٹی کا سربراہ بن گیا تمام علاقے اور شعبہ جات میرے ماتحت ھو گے

کمیٹی فیصلہ کرتی اور میں عملی جامعہ پہناواتا 1982 میں جب اسرائیل نے پورے لبنان پر قبضہ کر لیا تو حزب اللہ نے فیصلہ کیا کہ ان سے مقابلہ کرنے کے لیے روائیتی طریقہ سے ہٹ کر کوئی اور طریقہ تلاش کرنا ھو گا کیونکہ ھمارے پاس ہتھیاروں کی کمی تھی تو آخر کار فیصلہ ہوا

کہ ان پر فدائی حملے کیے جائیں سب سے پہلا فدائی حملہ احمد قیصر نامی نوجوان نے ایک بارود سے بھری ہوئی گاڑی صور میں ایک بڑی بلڈنگ کے ساتھ ٹکرا دی جہاں پر صہیونی فوجی رہائش پذیر تھے

جس کے نتیجے میں 85 فوجی مارے گئے 1992 میں سید عباس کی شھادت کے بعد حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل بنے سیاسی استحکام اور جماعت کی پوری دنیا میں پزیرائی کے لیے لبنانی انتخابات میں بھی حصہ لینے کا فیصلہ کیا

1990 کی دہائی تک بھی اسرائیل سرحد کے ساتھ لبنانی زمین کے ایک وسیع حصے پر قابض تھا تاہم مئی 2000 میں اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم ایہود باراک نے مقبوضہ علاقے سے دستبرداری اختیار کر لی یہ حزب اللہ کے عسکری ونگ کی کامیابی تھی 2006 میں حزب اللہ کے عسکریت پسندوں نے سرحد پار سے حملہ کیا جس میں آٹھ اسرائیلی فوجی مارے گئے اور دو کو اغوا کر لیا گیا بعد ازاں اسرائیل کو 119 فوجیوں اور 45 عام شہریوں کی ہلاکت کا نقصان سہنا پڑا اس وقت حزب اللہ ایک بہت بڑی طاقت بن چکی ہے

ایک لاکھ بیس ہزار سے دو لاکھ تک راکٹ اور زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائل طیارہ شکن میزائل بھی ہیں یہ ساری طاقت اور دشمن کے دل میں خوف سید حسن نصر اللہ کی قیادت نے ہی ڈالا ہے اللہ تعالیٰ فلسطین کے مسلمانوں کی مدد ونصرت فرمائے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں