57

عالمی ثالثی عدالت کا سندھ طاس معاہدے پر فیصلہ

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم ایک نازک اور سنگین مسئلہ بن گئی۔ اس تنازعے کے حل کے لیے عالمی بینک کی ثالثی میں 1960ء میں دونوں ممالک کے درمیان ”سندھ طاس معاہدہ” (Indus Waters Treaty) طے پایا، جس کے تحت دریائے سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کو، جب کہ راوی، بیاس اور ستلج بھارت کو الاٹ کیے گئے۔ اس معاہدے نے عشروں تک دونوں ممالک کے درمیان آبی تنازعات کو کسی حد تک قابو میں رکھا۔

تاہم 21ویں صدی میں بھارت کی جانب سے متعدد غیرقانونی ڈیمز کی تعمیر،خصوصاً کشن گنگا اور رتلے منصوبے،نے پاکستان کی طرف سے شدید تحفظات کو جنم دیا۔ پاکستان نے یہ معاملہ 2016 میں عالمی ثالثی عدالت (Permanent Court of Arbitration – PCA) میں لے جانے کا فیصلہ کیا۔

جون 2025 میں عالمی ثالثی عدالت کی جانب سے جاری کردہ فیصلہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ عدالت نے واضح الفاظ میں بھارت کے اس مؤقف کو مسترد کر دیا کہ وہ سندھ طاس معاہدے کو یک طرفہ طور پر معطل کر سکتا ہے۔ اس فیصلے کی کئی اہم جہتیں ہیں جن میں سرفہرست قانونی حیثیت کی تصدیق ہے ۔ عدالت نے پاکستان کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے یہ قرار دیا کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت جاری ثالثی کو کوئی بھی فریق یک طرفہ طور پر روکنے یا معاہدے کو معطل کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔

عدالت نے بھارت کے 22 اپریل 2025 کے اقدام،جس میں اس نے معاہدے کو معطل کرنے اور متوازی فورم قائم کرنے کا اعلان کیا تھا،کو غیر قانونی قرار دیا۔

فیصلہ اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ ثالثی عدالت کی کارروائی منصفانہ، بر وقت اور مؤثر انداز میں جاری رہے گی اور اس کا دائرہ اختیار کسی فریق کے انکار سے متاثر نہیں ہو گا۔

بھارت کی جانب سے اپریل 2025 کے پہلگام واقعے کے فوراً بعد سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور پاکستان پر الزام تراشی کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال نے برصغیر میں کشیدگی کو بڑھایا۔ 7 سے 10 مئی تک کی جنگی کیفیت نہ صرف دونوں ممالک بلکہ خطے کے امن کے لیے خطرے کا باعث بنی۔ عالمی ثالثی عدالت کا حالیہ فیصلہ بھارت کی اس حکمتِ عملی کو بھی ناکام قرار دیتا ہے جس میں وہ ’’غیر جانبدار فورم‘‘ کے نام پر متوازی نظام کھڑا کرنا چاہتا تھا۔

یہ فیصلہ نہ صرف پاکستان کی قانونی فتح ہے بلکہ بین الاقوامی ثالثی کے دائرے میں ایک اہم نظیر (precedent) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس فیصلے سے یہ پیغام ملتا ہے کہ دوطرفہ معاہدوں کی روح اور قانونی دائرہ کسی فریق کے وقتی مفادات سے بالاتر ہوتا ہے۔ بین الاقوامی قانون میں ثالثی کے عمل کو مسترد کرنا کسی فریق کو بچاؤ کا راستہ فراہم نہیں کرتا اور عالمی ادارے اب طاقت کے بجائے اصولوں کی بنیاد پر فیصلے کر رہے ہیں۔

حکومت پاکستان نے ثالثی عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے انصاف کی فتح قرار دیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے بھارت کو ایک بار پھر مذاکرات کی دعوت دینا، سفارتی بالادستی اور امن کی سنجیدہ کوشش کا مظہر ہے۔ پاکستان نے مسئلہ کشمیر سے لے کر آبی تنازعات تک، ہمیشہ بات چیت کو ترجیح دی ہے۔

بھارت نے جب پہلگام واقعے کو بنیاد بنا کر سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا اعلان کیا تو یہ اقدام درحقیقت ایک جنگی نفسیات کی پیداوار تھا۔ بین الاقوامی قانون میں اس قسم کی یکطرفہ معطلی کی نہ کوئی نظیر ہے نہ قانونی جواز بنتا ہے۔ بھارت کا یہ قدم عالمی سطح پر نہ صرف اس کی ساکھ کو متاثر کرتا ہے بلکہ یہ تاثر بھی ابھارتا ہے کہ بھارت آبی وسائل کو سیاسی دباؤ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

عالمی ثالثی عدالت کا یہ فیصلہ بلاشبہ پاکستان کی قانونی و سفارتی محنت کا ثمر ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف پاکستان کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے بلکہ بین الاقوامی برادری کے لیے بھی یہ پیغام ہے کہ عالمی معاہدوں کو ہتھیار نہیں، امن کا ذریعہ ہونا چاہیے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے، پاکستان کی مذاکرات کی پیش کش کا مثبت جواب دے اور خطے کو پائیدار امن کی طرف لے جائے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں