صَحَابہ کِرام ؓقرآن مجید کے آئینے میں

صحابیت کا درجہ ”وھبی“ ہے یا”کسبی“؟ کسبی کا مفہوم اور معنی ہے ”محنت اور کمائی“ اور ”وھبی“ کا معنیٰ ہے”عَطائے الٰہٖی“ یعنی صحابیت کا درجہ محنت کوشش اور سعی سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ یہ مقام اور منصب خالصتاً اللہ کے کرم اور خصوصی عطاء سے ملتا ہے۔ جس طرح نبوت کا درجہ کسبی نہیں بلکہ”وھبی ہے یعنی خالصتاً اللہ کی عطاء سے ملتا ہے“ ایسے نہیں ہے کہ کوئی شخص اعمال صالحہ کرکے نبوت کے منصب تک پہنچ جآئے۔کوئی بندہ نمازیں پڑھے، سارا سال روزے رکھے، ساری ساری رات مصلے پر گزارے،دن رات لگا اللہ کی رضا کے حصول میں لگا رہے اور (معاذ اللہ) نبی بن جائے۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہو سکتا۔ نبوت کا منصب قطعاً ”کسبی“نہیں ہے بلکہ”وھبی“ ہے یعنی عطاء الہی ہے اللہ جسے چاہے اسے عطاء فرما دے۔ یتیم پیدا ہوئے ہوں، چار سال کی عمر میں والدہ بھی داغ مفارقت دے گئے ہوں، آٹھ سال کی عمر میں شفیق دادا بھی چل بسے ہوں، کوء بھائی، بہن اور بھی نہ ہو اور بظاہر کوئی سہارا بھی نہ ہو پھر عرش والا چاہے تو ان کے سر پر ختم نبوت کا
تاج سجا کر اسے 14طبقوں کا سردار اور سارے نبیوں کا امام بنا دے۔ جس طرح نبوت کا درجہ”وھبی“ ہے بلکل اسی طرح صحابیتؓ کا مقام اور منصب بھی”وھبی“ ہے اس کا تعلق علم سے نہیں ہے اس کا تعلق عمل سے بھی نہیں ہے کوئی شخص بہت بڑا عالم ہو تو صحابی بن جائے گا کیا؟اعمال صالحہ زیادہ کرے اور صحابیت کے منصب پر پہنچ جائے؟ اللہ کے راستے میں بہت زیادہ خرچ کرے، ساری زندگی جہاد میں لگا رہے اور صحابی بن جائے؟ رات کو اٹھ کے نوافل پڑھے اور صحابی بن جائے؟ذکر اذکار زیادہ پڑھتا ہو تو صحابیت کے مرتبے پر فائز ہو جائے؟یہ قطعاً نہیں ہو سکتا اگر علم کی بنیاد پر یہ منصب ملتا تو امام اعظمؒ اور امام مالک بھیؒ صحابی ہوتے۔تقویٰ کی بنیاد پر یہ مقام ملتا تو ابنِ سیرینؒ اور قتادہؒ بھی صحابی ہوتے، نیکی اور اعمال صالحہ کی بناء پر ملتا تو شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اور ابو یزید بسطامیؒ بھی صحابی ہوتے مگر یہ بڑے بڑے اور عظیم المرتبت لوگ تقویٰ کے پہاڑ اور اعمالِ صالحہ کے کوہِ گِراں اس مرتبے اور اس منصب کو کیوں نہ پا سکے؟
اس لئے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے امام الانبیاء ﷺ کے زمانے میں پیدا ہی نہیں کیا اور حبشہ کے بلال ؓ کو محمد عربیﷺ کے زمانے میں پیدا بھی کیا اور ابوجہل و ابو لہب جیسے سرداروں کو
دُھتکار کر بلال کو امام الانبیاء ﷺ کے قدموں تک پہنچا بھی دیا بلکہ اسی بلال ؓ کے قدموں کی آہٹ جنت کے باغات تک بھی پہنچا دی۔رحمت اللعالمینﷺ کی گہری چاہت، حد درجہ قربت بھی ابوطالب کو وقت آخر تک کلمہ طیبہ کا اقرار نہ کروا سکی اور سینکڑوں میل دور سے حضرت سلمان فارسیؓ کو کیا چیز کھینچ کر محمد عربیﷺ کے قدموں میں پہنچا دیتی ہے؟یہ محض اللہ کی عطاء ہی تھی۔جب صحابیتؓ کا عظیم منصب اعمال کی وجہ سے حاصل ہی نہیں ہوتا جب کوئی صحابیؓ بھی اپنے اعمال کے بل بوتے پر اور اپنے اعمال کے زور سے اس منصب تک نہیں پہنچا تو پھر صحابہ ؓ کے اعمال پر بحث اور تنقید کیسے ہو سکتی ہے؟ کہ فلاں صحابیؓ نے یہ کام کیا اور فلاں نے یہ عمل کیا۔ عثمانؓ نے یوں کیا اور معاویہؓ نے یہ کیا، عمرو بن العاصؓ نے فلاں کام کیا اور طلحہؓ و زبیرؓ نے یوں کیا۔
صحابہ کرامؓ کے کسی عمل پر بحث تو آپ تب کریں جب انہیں یہ مقام اعمال کی وجہ سے ملا ہو۔ پھر کوئی کہے کہ اعمال صالحہ کی وجہ سے مقام ملا تھا مگر بعد میں ان کے اعمال میں العیاذباللہ خرابی آگئی اور معاذ اللہ انہوں نے دیدہ دانستہ مفاد پرستی اور خود غرضی کے لیے فلاں فلاں غلط کام کیئے۔ تو استغفر اللہ آپ اللہ رب العزت کی سلیکشن پر سوال اٹھا رہے ہیں کیا؟ صحابہ کرامؓ کو جب یہ عظیم منصب اعمال کی وجہ سے ملا ہی نہیں بلکہ اللہ نے اپنی رحمت اور فضل سے انہیں یہ مقام عطا فرمایا ہے تب صحابہؓ کرام کے اعمال و افعال پر بحث اور گفتگو کرنے کا کوئی جواز بنتا ہی نہیں۔
یاد رکھیں کل بروزِ حشر سب لوگوں کے اعمال تلیں گے، ایک طرف وہ ہوں گے اور دوسری طرف انکے اعمال، صرف اصحاب رسول ہی وہ طبقہ ہوگا جو ترازو کے ایک پلڑے میں خود ہوں گے تو دوسرے پلڑے میں، محمد عربیﷺ کی دوستی، انکیﷺ غلامی، انکیﷺ محفلیں، انکیﷺ معیت اور انکی محمد الرسول اللہﷺ سے نسبت تُلے گی۔ اسی لیئے پیغمبر اسلامﷺ نے فرمایا ”میرے یاروں کو برا بھلا مت کہو مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم میں سے اگر کوئی شخص احد کے برابر سونا خرچ کرے تو میرے ساتھیوں کے ایک مد بلکہ نصف مد خرچ کرنے کے برابر بھی نہیں ہو سکتا“۔ مد عرب کا پیمانہ تقریباً آدھا کلو گرام کے لگ بھگ ”(بخاری شریف، مسلم شریف: جلد دوم صفحہ: 272:)
ایک اور مقام پر فرمایا ”میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرنا میرے بعد انہیں طعن و تشنیع اور تنقید کا نشانہ نہ بنا لینا۔ جو بھی میرے صحابہ سے محبت کرتا ہے وہ میری محبت کی وجہ سے ان کے ساتھ محبت کرتا ہے اور جو شخص ان سے بغض رکھتا ہے وہ میرے بعض کی وجہ سے ان سے بغض رکھتا ہے (ترمذی شریف جلد دوم صفحہ: 266)