خصوصی اہتمام: مفتی محمد عثمان ایوبی
عظیم صحابی رسول‘ کاتب وحی‘ خال المؤمنین‘ فاتح شام و قبرص‘ امام تدبر و سیاست سیدنا امیر معاویہؓ۔ولادت:حافظ ابن حجرؒنے الاصابہ میں راجح قول یہ لکھا ہے کہ آپ ؓبعثت نبوت سے پانچ برس پہلے پیدا ہوئے۔نام و نسب:حافظ ابن حزم نے آپ کا نسب یوں تحریر کیا ہے معاویہ بن ابو سفیان بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی۔نسبی تعلقات:حضرت معاویہؓ کے خاندان کا خاندان نبوت سے بہت گہرا تعلق ہے امام ابن عساکر نے تاریخ مدینہ دمشق میں لکھا ہے کہ حضرت معاویہ کی ہمشیرہ ام المومنین رملہ(ام حبیبہ)بنت ابو سفیان نبی کریم ؐ کی زوجہ ہیں ابو جعفر بغدادی نے کتاب المحبر میں تحریر کیا ہے
کہ آپ ؓ نبی کریمؐ کے ہم زلف تھے ام المومنین ام سلمہؓکی بہن قریبہ صغری حضرت امیر معاویہ کے نکاح میں تھیں اس کے علاوہ بھی علماء انساب نے کئی تعلقات بیان کیے ہیں حضرت معاویہؓ بعثت نبوی سے پانچ سال قبل مکہ مکرمہ میں ابوسفیان کے گھر میں پیدا ہوے بچپن ہی سے آپ میں اولوالعزمی اور بڑائی کے آثار نمایاں تھے چنانچہ ایک مرتبہ جب آپ نو عمر تھے آپ کے والد ابو سفیان نے آپ کو دیکھا اور فرمانے لگے میرا بیٹا بڑے سر والا ہے اور اس لائق ہے کہ اپنی قوم کا سردار بنے‘آپ کی والدہ ہند نے یہ سنا تو کہنے لگیں صرف اپنی قوم کا میں اس کو روؤں اگر یہ پورے عالم کی قیادت نہ کرے اسی طری ایک قیافہ شناس نے آپ کو دیکھا توکہنے لگا میرا خیال ہے کہ یہ اپنی قوم کا سردار بنے گااس جہالت کے دور میں آپ ؓ کا شمار ان چند گنے
چنے لوگوں میں ہوتا تھا جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے آپ ؓ ایک وجیہہ اور خوبصورت انسان تھے‘رنگ گورا تھا اور چہرہ پروقار اور بردباری تھی حضرت مسلم ؓ فرماتے ہیں کہ معاویہؓ ہمارے پاس آے اور وہ لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت اور حسین تھے اس ظاہری حسن و جمال کے ساتھ اللہ تعالی نے آپ کو سیرت کی خوبیوں سے بھی نوازا تھا،چنانچہ ایک بہترین عادل حکمران میں جو اوصاف ہو سکتے ہیں وہ آپؓ کی ذات میں موجود تھے،حضرت عمر ؓ فرمایا کرتے تھے تم قیصرو کسریٰ اور ان کی سیاست کی تعریف کرتے ہو حالانکہ تمھارے اندر معاویہ موجود ہیں۔اسلام:آپ ؓ ظاہری طور پر فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائے مگر در حقیقت آپ نے عمرۃ القضاء سے پہلے ہی اسلام قبول کر لیا تھا آپ کا اپنا قول ہے کہ میں عمرۃ القضاء سے پہلے ہی اسلام لے آیا تھا مگر مکہ جانے سے ڈرتا تھا کیوں کہ میری والدہ اس کے خلاف تھیں تاہم ظاہری طور پر فتح مکہ کے موقع پر 25سال کی عمر میں معاویہؓنے اپنے والد کے ہمراہ اسلام لانے کا اعلان کیا یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بدر،احد،خندق اور صلح حدیبیہ سمیت تمام لڑائیوں میں آپ شریک نہ ہوئے حالانکہ آپ ؓ اس وقت صحت مند جوان تھے
آپ کے والد سالار کے طور پر شریک ہو رہے تھے اور آپ کے ہم عمر جوان بڑھ چڑھ کر اسلام کے خلاف جنگ میں حصہ لے رہے تھے ان باتوں سے پتا چلتا ہے کہ حضرت معاویہؓ کے دل میں ابتداء ہی سے اسلام کی روشنی اتر چکی تھی آپؓ غزوہ حنین اور محاصرہ طائف میں شریک رہے جب رسول اللہؐ طائف کا محاصرہ اٹھا کر عمرہ ادا کرنے کے بعد مدینہ روانہ ہوئے تو معاویہ ؓ بھی آپؐ کے ہمرہ مدینہ چلے آئے-حضورؐ چونکہ حضرت معاویہ ؓکے سابقہ حالات زندگی سے اور ان کی صلاحیت و قابلیت سے واقف تھے اس لیے اپنے خاص قرب سے نوازا اور کاتب وحی مقرر ہوئے علامہ ابن حزم لکھتے ہیں کہ نبی کریمؐکے کاتبین میں سب سے زیادہ حضرت زید بن ثابت ؓ آپ کی خدمت میں حاضر رہے اور اس کے بعد دوسرا درجہ حضرت معاویہؓ کا تھا یہ دونوں حضرات دن رات آپ کے ساتھ لگے رہتے اور اس کے سوا کوئی کام نہ کرتے تھے حضورؐ کے زمانہ میں کتابت وحی کا کام جتنا نازک تھا اور اس کے لیے جس احساس ذمہ داری امانت و دیانت اور علم و فہم کی ضرورت تھی وہ محتاج بیان نہیں‘چنانچہ نبی کریمؐ کی خدمت میں مسلسل حاضری‘ کتابت وحی،امانت و دیانت اور دیگر صفات محمودہ کی وجہ سے نبی کریم ؐ نے کئی بار آپکے لیے دعا فرمائی ایک بار یہ ارشاد فرمایا ”اے اللہ معاویہ کو ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنا دیجیے اور
اس کے ذریعے سے لوگوں کو ہدایت دیجیے“ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا”اے اللہ معاویہ کو حساب کتاب سکھا اور اس کو عذاب جہنم سے بچا“ان روایات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت معاویہؓ کو دربار نبوی میں غیر معمولی مرتبہ و مقام حاصل تھا اور آپؐ ان سے بہت زیادہ محبت فرمایا کرتے تھے ایک موقع پر ارشاد فرمایا ”اللہ اور اللہ کا رسول معاویہ سے محبت کرتے ہیں“حضرت معاویہؓ صحابہ کرام کی نظر میں حضرت قبیصہ بن جابر نے فرمایا”میں نے کوئی آدمی ایسا نہیں دیکھا جو حضرت معاویہ سے بڑھ کر بردبار ان سے بڑھ کر سیادت کا لائق‘ان سے زیادہ باوقار‘ان سے زیادہ نرم دل اور نیکی کے معاملہ میں ان سے زیادہ کشادہ دست ہو“اسی طرح حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ”میں نے معاویہؓ سے بڑھ کر کوئی آدمی سرداری کے لائق نہیں پایا“حضرت معاویہ ؓتابعین کی نظر میں حضرت عبداللہ ابن مبارک سے کسی نے سوال کیاکہ حضرت معاویہ اور حضرت عمر بن عبد العزیز میں کون افضل ہیں؟یہ سوال سن کر حضرت عبد اللہ بن مبارک غصہ میں آ گے
اور فرمایا”تم ان دونوں کی آپس میں نسبت پوچھتے ہو خدا کی قسم وہ مٹی جو نبی کریمؐ کے ہمراہ جہاد کرتے ہوے حضرت معاویہ کے گھوڑے کے ناک میں چلی گی وہ بھی حضرت عمر بن عبدالعزیز سے افضل ہے“وفات: حضرت معاویہؓنے اپنی وفات سے قبل گھر والوں کو دیگر وصیتوں کے ساتھ یہ وصیت بھی فرمائی کہ ایک مرتبہ میں نبی کریمؐکے ساتھ سفر میں تھا آپ نے دیکھا کہ میرا کرتہ کاندھے سے پھٹا ہوا ہے تو آپؐ نے مجھے اپنا کرتہ مبارک عنایت فرمایا وہ میں نے ایک بار سے زیادہ نہیں پہنا وہ میرے پاس محفوظ ہے
اور ایک روز حضور پاکؐ نے بال اور ناخن ترشواے وہ بھی میرے پاس محفوظ ہیں دیکھو جب میں مر جاوں تو غسل دینے کے بعد یہ ناخن اور بال میری آنکھوں کے حلقوں نتھنوں اور سجدے کے مقامات پر رکھ دینا اور کرتہ مبارک میرے سینے پر رکھ کر کفن پہنانا مجھے امید ہے اللہ پاک حضور کی ان چیزوں کی برکت سے میری مغفرت فرما دیں گے ان وصیتوں کے بعد 22رجب المرجب 60ھ میں کاتب وحی جلیل القدر صحابی رسول فاتح شام و قبرص اور 19سال تک 64 لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے والے سیدنا امیر معاویہؓ 78سال کی عمر میں وفات پا گے۔ حضرت ضحاک بن قیس نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور دمشق کے باب الصغیر میں دفن کیے گے-(رضی اللہ عنہ)