شہزاد حسین بھٹی پر تحقیقی مقالہ

اٹک کی سرزمین ہمیشہ اہلِ علم و ادب کا گہوارہ رہی ہے۔ یہاں کے ادبی ماحول میں ایک خاموش مگر مضبوط روایت پنپتی رہی ہے، ایسی روایت جس میں خلوص، دردِ دل اور فکری صداقت کا گہرا رنگ جھلکتا ہے۔ حال ہی میں گورنمنٹ گریجویٹ کالج اٹک کے شعبہ? اردو میں ایک ایسا تاریخی لمحہ آیا جس نے اس روایت کو مزید جِلا بخشی۔ بی ایس اردو پروگرام کے پہلے بیچ کے تحقیقی مقالوں کے زبانی امتحانات مکمل ہوئے، اور انہی میں ایک مقالہ ایسا تھا جس نے سب کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی“شہزاد بھٹی کی کالم نگاری: تجزیاتی جائزہ”۔
یہ مقالہ اپنی نوعیت کا منفرد اور تاریخی ہے۔ ضلع اٹک کی تاریخ میں یہ پہلا تحقیقی کام ہے جو کسی صحافی اور کالم نگار پر بی ایس سطح پر مکمل کیا گیا۔ یہ اعزاز صرف ایک فرد کا نہیں بلکہ پورے اٹک کے علمی اور صحافتی حلقوں کا ہے، کیونکہ شہزاد حسین بھٹی وہ پہلے صحافی ہیں جن پر گورنمنٹ گریجویٹ کالج اٹک کے شعبہ اردو میں تحقیقی مقالہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔اس تحقیقی کام کا سب سے روشن پہلو یہ ہے کہ اس نے صحافت کو محض خبر رسانی کے دائرے سے نکال کر علم و تحقیق کے افق تک پہنچایا ہے۔ شہزاد حسین بھٹی کی کالم نگاری اس بات کی زندہ مثال ہے کہ جب قلم نیت، احساس اور درد کے ساتھ چلتا ہے تو وہ محض رائے نہیں بلکہ فکری ورثہ بن جاتا ہے۔اس امتحان کی صدارت ممتاز محقق، نقاد اور شاعر پروفیسر ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد (صدر شعبہ اردو، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد) نے کی، جنہوں نے شہزاد حسین بھٹی پر ہونے والی تحقیق کو نہایت معیاری قرار دیا۔ ڈاکٹر ناشاد نے اپنے تاثرات میں کہا کہ بھٹی صاحب کی کالم نگاری میں خلوص، سچائی اور انسانی رشتوں کی حرارت نمایاں ہے وہ اپنے قاری کے دل میں جگہ بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔تحقیقی مقالہ تیار کرنے والی طالبہ رمشا نوید نے اپنی محنت اور خلوص سے اس کام کو فکری سطح پر بلند کر دیا۔ اس نے نہ صرف شہزاد حسین بھٹی کے کالمی سفر کو تاریخی تناظر میں دیکھا بلکہ ان کے اسلوب، زبان کے آہنگ، اور موضوعات کی وسعت کو بھی گہرائی سے پرکھا۔ رمشا نوید نے یہ ثابت کیا کہ ادب اور صحافت کے درمیان کوئی دیوار نہیں، بلکہ دونوں ایک ہی سرچشمے احساس اور سچائی سے پھوٹتے ہیں۔کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر سید محمد عمران، وائس پرنسپل پروفیسر اظہر محمود، اور دیگر اساتذہ نے اس کامیابی کو شعبہ اردو کی تاریخ کا سنگِ میل قرار دیا۔ یہ محض ایک تحقیقی مقالہ نہیں بلکہ اس عزم کی علامت ہے کہ اب ہماری درس گاہیں اپنے مقامی ہیروز اور فکری رہنماؤں کو علمی سطح پر تسلیم کرنے لگی ہیں۔شہزاد حسین بھٹی کی تحریریں ہمیشہ زندگی کی گہرائیوں میں اتر کر بات کرتی ہیں۔ ان کے کالموں میں لفظوں کی چمک نہیں، احساس کی گرمی ہے۔ وہ عام آدمی کے دکھ کو اپنی زبان دیتے ہیں، معاشرتی بے حسی پر سوال اٹھاتے
ہیں، اور امید کی ایک لکیر کھینچتے ہیں۔ یہی وہ خصوصیات ہیں جنہوں نے ان کی کالم نگاری کو محض صحافت نہیں، بلکہ ادب کا حصہ بنا دیا ہے۔یہ تاریخی موقع گورنمنٹ گریجویٹ کالج اٹک کے لیے بھی باعثِ فخر ہے، کیونکہ اس نے ایک ایسی روایت قائم کی ہے جو آنے والے وقتوں میں مزید محققین کو اپنے مقامی اہلِ قلم پر تحقیق کی ترغیب دے گی۔ یہ تحقیق اس امر کی گواہی ہے کہ اٹک کی فکری زمین زرخیز ہے، یہاں سے علم و ادب کے کئی اور چراغ جلیں گے۔یہ کامیابی صرف شہزاد حسین بھٹی کی نہیں بلکہ اٹک کے تمام صحافیوں، کالم نگاروں، اور اہلِ قلم کی ہے جنہوں نے سچائی کے ساتھ اپنے قلم کو امانت سمجھ کر استعمال کیا۔ یہ لمحہ اس دھرتی کے لیے بھی باعثِ فخر ہے جس نے ہمیشہ اہلِ فکر کو جنم دیا۔آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ گورنمنٹ گریجویٹ کالج اٹک میں“شہزاد حسین بھٹی کی کالم نگاری”پر تحقیقی مقالے کی تکمیل ایک نئے فکری عہد کا آغاز ہے ایک ایسا عہد جس میں علم و تحقیق، ادب و صحافت کے سنگم پر نئی روشنی جنم لے رہی ہے، اور اس روشنی کے مرکز میں ہے اٹک کا فخر شہزاد حسین بھٹی۔