خودارانسان‘عزت دارصحافی اوربھائیوں جیسا ہم درد دوست عابد صدیق بٹ بھی اپنے چاہنے والوں کو روتا بلکتا چھوڑ کر منوں مٹی تلے چلا گیا۔ عابد صدیق بٹ فلاحی سرگرمیوں میں تو ایک عرصے سے مصروف کار تھا ہی علاقائی صحافت میں قدم رکھا تو جودرست سمجھا بے خوف ہوکر لکھا اورمتعدد درباری صحافیوں کو ناکوں چنے چبوادئیے۔سیاسی شخصیات کی دعوتوں اورکھانوں کو کھری اور سچی صحافت کے لیے زہر قاتل سمجھتا اوراس بات کااظہار اکثراپنے قریبی صحافتی حلقوں میں بھی کرتا رہتاتھا۔ہلکی پھلکی پوٹھوہاری شاعری بھی کرتا اور پوٹھوہاری شاعری کے فروغ کے لیے کوشاں ایک واٹس ایپ گروپ دبستان پوٹھوہار کے چند ایک طرحی مشاعروں میں شرکت بھی کی۔چند ماہ قبل برادرم یاسر وحید بھٹی کے زیرانتظام دوبئی میرج ہال دربار موڑ بھنگالی میں محفل مشاعرہ کاانعقاد ہواتو اس کے انتظامی معاملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔کینسر کی تشخیص کے بعد ککھڑا میں اسکی رہائش گا ہ پر چند ماہ قبل تفصیلی اور آخری ملاقات ہوئے تو چہرے پر کرب کے آثار نمایاں ہوچکے تھے۔کہنے لگا اب کوئی دوست ملاقات کے لیے آتا ہے تو دل خوش ہو جاتا اور طبیعت ہلکی پھلکی ہوجاتی ہے۔ تکلیف کے باعث ساری ساری رات نیند نہیں آتی۔جلد کیمو تھراپی کا آغاز ہو گا۔ اس ملاقات میں یہ شائبہ تک نہ ہوسکا کہ ہمارا یہ دوست چند ماہ بعد ہی دنیا سے چل بسے گا۔وہ خود بھی پراعتماد تھا کہ کیمو سے بیماری کنٹرول ہوجائے گی۔ عابد صدیق بٹ کی مجھ سے محبت اور دوستی میرے کچھ کم ظرف مخالفین کو پسند نہ تھی یہ اسے روکتے اور وہ دبنگ انسان انہیں منہ توڑجواب دیکر چپ کرا دیتا۔اسی ملاقات میں اس بابت بتانے لگا تومیرے لب پر بے ساختہ ان کم ظرفوں کے نام آگئے تو ہنس پڑا۔علاقائی اور نسلی تعصبات سے کوسوں دوراس خوبصورت انسان کے لیے ہر لب پر دعائے مغفرت ہے۔ اللہ پاک کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ آمین عابد صدیق بٹ کاحلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ مجھے یقین کامل ہے کہ حبیب نواز قریشی‘ غیور عباس‘ سردار حمزہ مغل‘ خلیل میر‘ آصف خاکی‘ عمرداز بٹ‘ ساجد محمود جنجوعہ‘ حبیب رزاق‘ سابق ایس ڈی اور اجہ محمد یعقوب جیسے سینکڑوں مخلص دوست
ان شاء اللہ ان کے پسماندگان کی ہر ممکن معاونت کریں گے۔
168