سچائیاں نقوش چھوڑتی ہیں بس انکا مشاہدہ کرتے رہا کریں

گاوں سے پنڈی کی طرف دن کو اپنا رخت سفر باندھا ابھی مین گیٹ کراس ہی کیا تھا تو فون نے الرٹ کر دیا ایک فیصد چارجنگ ہے بی بی بیک اپ کے لیے کچھ سوچو۔۔
چونکہ اکیلی بھی تھی تو سفر بھی لوکل کرنا تھا تومیں نے ضروری نمبر نوٹ کر لیے ایک پیپر پر کہ رستے سے کسی سے موبائل لے کر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
میں پنڈی والی گاڑی میں سوار ہوئی اور کچھ ہی لمحوں بعد میں نے کنڈیکٹر سے موبائل لیا مجھے گھر والوں نے پک کرنا تھا اس لیے مسلسل رابطے کی کوشش میں رہی۔ جب تک میری بات نہیں ہوئی کنڈیکٹر نے موبائل مانگا نہیں پھر جب میں نے خود واپس کیا تو۔پوچھا کہ آپ کا رابطہ۔ہوگیا میں نے کہا جی۔

جب میں گاڑی سے اتری تو وہ آخری سٹاپ تھا تو اک بار پھر میں نے سوچا ٹرائے کر لوں اور اطلاع دوں کہ میں فلاں جگہ پہنچ گئ ہوں تو کنڈیکٹر نے کہا آپ کا ڈائل کیا ہوا نمبر تو میں نے ڈلیٹ کر دیا وہ جلدی میں بھی تھے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے میں اگلی گاڑی میں جا کر کسی سے موبائل لے لوں گی۔پاکستان کے باسیوں کا مثبت چہرہ بھی دیکھا کیجیے ہمارے ملک کا ہر مرد برا نہیں کچھ اچھوں سے بھی اچھے ہیں۔

اگلی سات نمبر گاڑی میں فرنٹ پر بیٹھی برابر والی سیٹ پر ایک آنٹی بیٹھی تھی۔ تو ان سے موبائل لے لیا انکا موبائل کافی دفعہ کلک کرنے پر ایک ہی کلک کرتا تھا آخری سٹیج پر تھا وہ مگر وہ بہت سپورٹ کر رہی تھی موبائل میرے ہاتھ میں تھما دیا۔اسی دوران میرے استسفار پر وہ بتانے لگی کہ فلاں فیز میں ایک نامور اسکول میں آیا کی جاب کرتی ہوں مگر کسی کسی دن چھ بجے گھر پہنچتی ہوں ہمیں جلدی نہیں آنے دیا جاتا اور مسافت بھی کافی ہے اور اب تو کچہری کا رستہ بھی بند ہے۔ میں ایگزیٹ پوائنٹ نہیں بتا سکتی مگر اسکول سے گھر تک کی مسافت کافی تھی انکی

اسی دوران ان کو ایک کال آئی وہ سننے لگی اور باتوں ہی باتوں میں کہنے لگی کہ میری چار بیٹیاں نہ ہوتیں تو میں خود کشی کر چکی ہوتی۔ پوچھنے پر بتانے لگی سکول کی آیا کا فون تھا۔ کالے رنگ کے ابائے میں وہ ملبوس تھی جبکہ آیا کا ایک خاص یونیفارم بھی پہن رکھا تھا۔ انکی آنکھوں کے گرد سیاہ نقوش بتا رہے تھے کہ عورت نے بہت محنت کی ہے۔ ان کے شوہر کسی کا رکشہ چلاتے تھے۔ پندرہ ہزار گھر کا رینٹ تھا جبکہ انکی سیلری تیس تھی۔ چاروں بچیاں ہی تھی بچہ نہیں تھا۔ سفر کی اکتاہٹ دور کرنے کے لیے میں ان سے سوال۔جواب کرتی رہی وہ کہنے لگی دل کی باتیں آپ سے کرنے کو جی کر رہا ہے تو کر رہی ہوں ۔

کہتی ہیں میرے پیسے بلوں پر جاتے ییں اور خاوند کی کمائی بیٹیوں کی فیسوں پر اس طرح کی ان گنت کہانیاں ہماری آنکھیں ہر روز دیکھتی ہیں ہر روز سنتی ہیں۔میں نے کہا رشتے اگر اچھے اتے گئے تو شادیاں کرتی جانا بیٹیوں کی، انکا جواب آیا کہ غریبوں کے گھر کون آتا ہے انکے اس جواب ہر میں خاموش ہو گئ بلکہ لاجواب ہو گئی میں نے توقف کے بعد کہا اچھے سے مراد بااخلاق لوگ عاجز لوگ انکی سب سے بڑی بیٹی بارہویں میں تھی۔
اور چھوٹی ساتویں میں،کہتی ہیں چھوٹی والی گھر کا کام کرنے سے منہ پھیرتی ہے کہتی ہے امی میں سب سے خوبصورت ہوں کام نہ کروایا کریں تو میں بیٹی سے کہتی ہوں تمھاری خوبصورتی کو میں نے دھو کر تو نہیں پینا۔۔ مطلب غربت اور خوبصورتی کا کوئی جوڑ نہیں یہ بات تو طے ہو چکی ہے۔

اس واقعے کا نچوڑ میں نکال نہیں سکتی مگر چند باتیں کروں گی کہ اداروں کو چاہیے کلاس فور کے ملازمین کو رلیکسیشن دیا کریں ہر اچھا عمل صدقہ ہے کون کس طرح آتا جاتا ہے، کون یہ ملازمت کس مجبوری کے تحت کرتا ہے ادارے کے علم میں ہونا چاہیے اور ان لوگوں سے درخواست ہے جو سگنل پر بھکاریوں کو دس، سو یا پچاس دیتے ہیں خدا راہ مت ان پر ضائع کیجیے اس طرح کی فیملیز نظر میں رکھ کر کبھی انکو سپورٹ کیا کیجیے۔

خیر جب میری منزل آئی میں نے ان سے نمبر لے لیا کہ دستِ غیب فاونڈیشن کی طرف سے اور اپنی طرف سے انکے لیے کچھ لے جاوں گی اور میں حقداروں کی تلاش میں یوں ہی رہتی ہوں اور ہمیشہ حقداروں تک پہنچ کر انکی دل۔جوئی کر کے سکون پاتی ہوں۔

اس واقعے سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ بچیوں کی شادیاں جب جلدی ہو بھی جائیں تو آگے انکو ناقدرے شوہر مل جائیں جو انکو اس سے بھی نچلی سطح پر لے جائیں تو بہتر ہے شادی کے بعد اور۔ پہلے بیٹیوں کو اپنے پاوں پر کھڑا کریں تاکہ وہ کم از کم مالی طور پر شوہر کی محتاج نہ رہیں۔

کالم:: زرنامہ
تحریر:: زرتاشیہ مہوش مغل