سماج میں افراد باہمی میل جول سے رہتے اور اتحاد و اتفاو سے تمام تر تعصبات سے بے نیاز ہو کر بستے ہیں۔زندگی کا یہ تسلسل قابل غور ہی نہیں قابل تعریف بھی ہے۔ہر فرد ایک زنجیر کی خوبصورت کڑی کی مانند ہے۔ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرنا٬دکھ درد میں شرکت کرنا٬مسائل حل کرنے میں معاونت کرنا گویا یہ رہہن سہن کا حسین سلسلہ ہے۔ماہرین کے مطابق صحافت ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس سے سماج کو درپیش مساٸل کا حل اور خدمت انسانیت کا بہترین سلسلہ ہے۔تاریخ صحافت کے گمشدہ اوراق کے تناظر میں تجسس اور تلاش انسان کی فطرت میں شامل ہے۔اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جب سے انسان کی تخلیق ہوٸی تجسس اور تلاش و جستجو کی روایت چلی آرہی ہے۔ماہرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ صحافت تو ایسی پرخار وادی ہے جس میں سفر کرنا مشکل ترین کام ہے۔بقول شاعر
اپنے بھی خفا مجھ سے بیگانے بھی ناخوش
میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند(اقبالؒ)
صحافت تو ایسا راستہ ہے جو صداقت کے علمبرداروں کے لیے ایک آزمائش سے کم نہیں۔تاریخ کا مطالعہ کریں تو حقائق بیان کرنے کی پاداش میں صحافی جان بھی قربان کر دیتے ہیں۔جن کے کردار پر شاعر کی زبان بھی خاموش نہیں رہتی بلکہ عقیدت کے پھول پیش کرتی ہے۔بقول شاعر
کچھ ایسے بھی اٹھ جائیں گے اس بزم جہاں سے
تم ڈھونڈنے نکلو گے مگر پا نہ سکو گے
کتاب اخبار نویسی کی مختصر ترین تاریخ مصنف ایم۔ایس۔ناز کا انتساب بھرپور عکاسی کرتا ہے۔لکھتے ہیں”حادثہ قاہرہ میں شہید ہونے والے صحافیوں کے نام ۔اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستی ہیں“
اس کے تناظر میں سماج میں صحافت اور اہل قلم کا کردار آج بھی زندہ ہے۔صحافت کی داستان عہد بہ عہد اور شہر بہ شہر زندہ ہے۔صحافت اور قلم سے محبت کرنے والوں کی زندگی اس روشن آفتاب کی مانند ہے جو تاریک راتوں میں اجالا کرتے روشنی کی قوس وقزح سے ایک نیا منظر پیدا کر دیتا ہے۔ایک سچا صحافی اور تجربہ کار قلم کار جو صحافت کی زبان اور قواعد پر مکمل عبور رکھتا ہے کبھی خواہش کی انگڑائی کی نذر نہیں ہوتا۔
ایک بات کا احساس اس وقت شدت سے ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر تحریروں میں الفاظ درست طریقے سے استعمال نہیں کیے جاتے اس سے نہ صرف اردو زبان پر آنچ آتی ہے بلکہ صحافت کا دامن بھی متاثر ہوتا ہے۔اس معاملہ میں احتیاط کی ضرورت ہے۔ایک مثالی اور انسانیت سے محبت کرنے والا صحافی اور قلم کار علم کی تلاش کے لیے سرگرداں رہتا ہے۔الفاظ کی درستگی اور زاویہ خیال میں بہتری لانے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔مکمل اور حقائق پر مبنی تبصرے اور تجزیے لکھ کر اپنا فرض ادا کرتا ہے۔بقول شاعر
ہمارے ذہہن پر چھاۓ نہیں ہیں حرص کے ساۓ
جو ہم محسوس کرتے ہیں وہی تحریر کرتے ہیں(حبیب جالب)
اہل قلم کا کردار تو ان کی تحریروں سے عیاں ہوتا ہے اس لیے الفاظ کے استعمال میں احتیاط لازم ہے۔بات ایسے اسلوب نگارش سے کی جاۓ کہ دل میں اتر جاۓ۔اسلامی تعلیمات سے عیاں ہے کہ معلم انسانیتؐ کے سمجھانے کا انداز کس قدر پیارا تھا۔جو بھی زبان مبارک سے کلمات ادا ہوتے تو دلوں میں اتر جاتے تھے۔اس کی روشنی میں سماج کی خوبصورتی میں اضافہ کے لیے اہل قلم کا مثبت کردار وقت کی ضرورت ہے۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اچھا انداز گفتگو تو مومن کا اخلاق ہوتا ہے۔عصرنو کے تقاضے بھی تو یہی ہیں کہ انسانیت کی بہتری اور اصلاح کے لیے مثبت طرز عمل اختیار کیا جاۓ۔اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ صحافت ایک بہت بڑی قوت ہے۔تاہم اس کے اصول و ضوابط بھی تو اتنے طاقتور ہیں ان پر عمل نہ کیا جاۓ تو وہ مقام نہیں مل پاتا جس کی ضرورت ہے۔انسانیت کی خدمت تو یہی ہے کہ مسائل اجاگر کیے جائیں۔غیر جانبدارانہ طرز نگارش اختیار کیا جاۓ۔مقامی مسائل سے عالمی سطح پر درپیش مسائل اجاگر کرنے میں اہل قلم ہی کردار ادا کرتے ہیں۔
فخرالزمان سرحدی