سرکاری اہلکاروں اور انسانی اسمگلرز کا گٹھ جوڑ اب بھی جاری ہے 212

سرکاری اہلکاروں اور انسانی اسمگلرز کا گٹھ جوڑ اب بھی جاری ہے

یونان میں کشتیوں کے حادثے میں جاں بحق پا کستانیوں کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی ہے جبکہ لیبیا میں ابھی بھی تقریبا پا نچ ہزار پا کستا نی موجود ہیں اور یورپ جا نے کے خواہشمند یہ افراد مختلف پاکستانی اور لیبیا کے ایجنٹوں کے پاس ہی مو جود ہیں گذشتہ کئی سالوں سے اس قسم کے واقعات مسلسل وقوع پذیر ہو رہے ہیں مگر ارباب اختیا ر اور حکو متی ادارے اس ضمن میں با لکل بے بس نظر آتے ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستان ان حادثات کی وجہ سے بدنام ہو گیا ہے گذشتہ برس کے سانحے سے متعلق دو ڈائریکٹرز کی انکوائریاں اور سفارشا ت سرد خا نے کی نذرہوگئی ہیں۔

سرکاری اہلکاروں اور انسانی اسمگلرز کا گٹھ جوڑ اب بھی جاری ہے۔ سفاک انسا نی اسمگلرز بلا تفر یق سب کا استعمال کر رہے ہیں وہ عورتو ں بچو ں یا آدمی جو ہا تھ لگے اسے اپنے مقا صد کے حصول کا ذریعہ بنا لیتے ہیں جب بھی کو ئی نیا واقعہ رو نما ہو تا ہے تو سو ئے ہو ئے ادارے جا گ اٹھتے ہیں۔ کچھ گر فتا ر یا ں ہوئی ہیں کچھ ایف آئی آر درج ہو تی ہیں پھر آہستہ آہستہ معا ملا ت دبتے چلے جا تے ہیں اور ایجنٹ پھر وہی کام وہیں سے شروع کر دیتے ہیں

جہاں سے چھوڑا ہوتا ہے پہلے کی طرح اس بار بھی مقدمات درج ہو تے ہیں لوگ گرفتار بھی ہو تے ہیں مگر کچھ عرصہ بعد یہ بھی رہاہوجا تے ہیں کبھی سرد خانو ں کی نذر ہو جا تے ہیں اور پھر سے یہی کچھ ہو نے لگ جاتا ہےکیونکہ مجرموں کے پاس مظلوموں سے لو ٹا ہو بہت سارا پیسہ ہو تاہے اور پیسے سے سب کچھ خریدا جا سکتا ہے ہمارے ملک کے ہزاروں نو جوان اس مو ت کے پھندے میں بری طرح پھنس چکے ہیں

اگر اس جانب صحیح طو ر پر تو جہ کی جائے تو اندازہ ہو گا کہ یہ ایک سر گرم مافیا ہے جو پو رے ملک اور ملک سے باہر سرگرم عمل ہے اور لوگو ں کے مال و دولت لوٹ کر ان کی جان بھی لے رہا ہے کیو نکہ جس طریقے سے وہ یو رپ پہنچا نےکی کوشش کرتے ہیں اس میں زندہ بچنے کے بہت کم امکانا ت ہو تے ہیں۔ زمین کےراستے جا نے والوں کو عموماً بارڈر فورس گولی ماردیتی ہے اور سمندر کے راستے جا نے والے پانی میں غرق ہو کر ہلاک ہو جاتےہیں

اس کا ایک دردناک پہلو یہ بھی ہےکہ ان تارک وطن لوگوں میں بڑ ی تعداد ان لوگو ں کی ہو تی ہے جو پہلے ہی مفلو ک الحا ل ہو تے ہیں اور اپنی زندگی کی آخری پو نجی مثلا گھر زمین زیو ر جا ئیداد وغیرہ بیچ کر مو ت کہ منہ میں جا رہے ہو تے ہیں مگر ان کی حالت پر کسی کو بھی ترس نہیں آیا بس ایک خبر شائع ہو جاتی ہے جو کچھ دنوں میں اپنا اثر کھو دیتی ہے پر نٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ہما رے تجزیہ کا ر اور دانشور اکثر یہ منظر پیش کرتے ہیں کہ چو نکہ پاکستان کا معا شی مستقل مخدوش ہے اس لئے لا کھو ں افراد وطن چھو ڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

چند نام نہاد دانشور اور تجزیہ کا ر اپنے مفادات کی خا طر قوم میں ما یو سی پھیلا نے کا سبب بنتے ہیں اس منفی طرز عمل کا خا تمہ ضروری ہے جب کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہی نو جو ان پا کستا ن میں کو ئی بھی اچھا ہنر با قاعدہ طو رپر سیکھ کر بہتر ین روزگار حاصل کر سکتے ہیں دراصل تا رکین وطن کی اسمگلنگ بڑی ہنری سے ایک بڑا مجرمانہ کاروبار بنتا جارہا ہے جس پر قابو پا نے کی کو ششوں کو اس جرم کی بین الااقوامی نوعیت اور بہت سے ممالک میںمو زوں قوانین کے فقدان کے سبب مسائل کا سامنا ہے اس انسانی اسمگلنگ کا ایک دردنا ک پہلو یہ بھی ہےکہ ان مظلوم انسانوں کو اسمگل کر نے کے لئے نہایت ہی تکلیف دہ حالات اور غیر انسا نی سلو ک سے گزارا جا تا ہے زمینی سفر کے پہلے مر حلہ کے دوران سفر کی انتہا یہ ہو تی ہے کہ کھلی گاڑیو ں میں جا نو رو ں کی طرح لا د کر لے جا یا جا تا ہے تعداد بہت زیا دہ
ہو نے کی وجہ سے اگر کو ئی گر جا تا ہے تو اسے وہیں بے یا رو مددگا ر اسی حا لت میں چھو ڑ دیا جا تا ہے اب اگر کو ئی زخمی ہے تو بھی کو ئی مدد نہیں کی جا تی دوسرے مرحلے میں جب یورپ میں داخل ہو نے والے ہو تے ہیں تو سمندر کا راستہ اختیا ر کیاجاتا ہے اور وہا ں بھی یہی طریقہ جاری رہتا ہے سمندر میں ان بے بس انسا نو ں کو اسمگل کر نے کے لئے پر انی ما ہی گیری کی کشتیا ں استعما ل کی جا تی ہیں جو عمو ماً بہت ہی خراب حا لت میں ہو تی ہیں یہا ں بھی ان مظلو م انسا نو ں کو بھیڑیکریوں کی طرح کشتی پر لا د دیا جا تا ہے اور ایسے حالا ت میں سفر کرنے پر مجبور کیا جا تا ہے جو شاید لو گ اپنے جا نو رو ں کے لئے بھی استعمال کرنا پسند نہ کریں۔ظلم کی انتہا یہ کہ اب اگر کشتی خراب ہو جائے تو جا ن بچنے کے امکا نا ت صفر کے برابر رہ جا تے ہیں اگر کو سٹ گا رڈ پکڑ لیں یا حملہ کر دیں تو بھی جان خطرے میں پڑ جا تی ہے۔

لا کھو ں رو پے لے کر بھی ان تا رک و طن لو گوں کو بے یا رو مددگا ر چھو ڑ دیا جا تا ہے جس کا نتیجہ عمو ما ًبے بسی کی مو ت ہی ہو تا ہے جس کی خبریں کبھی کبھی مقامی اور بین القوامی میڈیا سے ملتی رہتی ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ انسا نی اسمگلر خود قانو نی طور پرسفر کرتے ہیں جبکہ پاک ایران سرحد پر آباد مقا میو ں کی مدد سے ان تارکین وطن کو سرحد پار کر واتے ہیں جن میں کچھ لو گ حادثات سخت موسمی حالات اور کچھ سرحدی فورسز کی گو لیوں کانشانہ بن کر زندگی کی بازی ہار جاتےہیںاعدادوشمار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پا کستا نی شہریو ں کی کتنی بڑی تعداد روزگار حا صل کر نے کے لئے غیر قانو نی ہجرت کی جانب راغب ہو رہی ہے سفر کی ان مشکلات کے ساتھ سا تھ کچھ تارکین وطن جو جرائم پیشہ عناصر کی جانب سے اغوا برائے تاوان کے عذاب کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اگر چہ ایف آئی اے نے متعدد انسانی اسمگلروں کو گرفتار کر کے سزا بھی دلوائی ہے لیکن چو نکہ یہ کالا دھندا بین الا قوامی سطح پر کیا جاتا ہے اس لئے ان جرا ئم پرمکمل قابو پانا آسا ن نہیں ہے

ایک جانب پاکستان دہشتگردی اور غیر قانونی نقل و حمل کو رو کنے کی غرض سے ایران اور افغا نستان سے متصل اپنی سرحدو ں پر تیزی سے با ڑلگا رہا ہے وہیں دوسری جا نب ملک میں بے روزگا ری اور مہنگائی سے تنگ بہت سے شہری مستقل کا خواب آنکھو ں میں سجا ئے غیر قا نو نی طو ر پر سرحدپار جا ہے اس نو سو تیس کلو میٹر طو یل ایرانی سرحد کو غیر قانو نی ہجرت کا گیٹ وے تصور کیا جاتا ہے اس سرحد سے بلو چستان کے پانچ اضلاع چا غی و اشک پنجگو ر کیچ اور گو ادر متصل ہیں جہاں شہروں سے با ہر ریا ست کی مو جو دگی کی محدود نشانیو ں کے طو ر پر چند چیک پوسٹس اور ایک ہی سیدھ میں بجھی ٹو ٹی پھو ٹی سڑکیں نظر آتی ہیں ان علا قو ں میں اکثر لو گو ں کا ذریعہ معاش اسمگلنگ صرف پا کستان کا ہی نہیں بلکہ دنیا میں کئی مما لک کے لئے ایک حل طلب مسئلہ ہے اسمگلنگ ایک سنگین جرم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی دنیا کا ہر ملک ہی انسا نی اسمگلنگ سے جڑے مختلف مسائل کا سا منا کر رہا ہے

انسانی اسمگلنگ کی روک تھا م کے لئے کئی قوا نین موجودہیں ان قو انین کی رو شنی میں انسانی اسمگلنگ میں ملو ث افراد کو جرم ثابت ہو نے پہ چودہ سال قید تک کی سزائیں سنائی جا سکتی ہیں جبکہ انسانی اسمگلنگ پر نظر رکھنے اور اس جرم کی سرکوبی کے لئے اینٹی بیو من ٹریفکنگ سیل کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے اس مکروہ دھندے کا جا ری رہنا حکا م سے مزید تو جہ کا تقاضا کرتا ہے حکو مت کی جانب سے خا طر فو ا ہ اقدا ما ت کا نہ ہو نا ان جرائم کے پروان چڑ ھنے کی ایک بڑی وجہ ہو سکتی ہے دوسرا ان مجرموںکو قرار واقعی سزاؤں کا نہ دیا جانا بھی اس قسم کے بدترین جرائم کے پنپنے کی وجہ ہو سکتی ہے۔

ضرو رت اس امرکی ہے کہ سرکا ری سطح پر اور غیر سرکا ری سطح پر عام لو گوں میں اس معاملے کی سنگینی کے متعلق آگہی پیدا کی جا ئے انہیں سمجھا یا جا ئے کہ یہ خا لص نقصان کا سود ہے اور اس کے سا تھ ساتھ ایسی قانو ن سازی کی جا ئے جو اس ما فیا کی بیج کنی میں معاون
ثابت ہو اور ایسی سزائیں دی جا ئیں کہ لو گ عیرت پکڑ ہیں ورنہ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا اور سادہ لو گ اور کم تعلیم یا فتہ لو گ اسی طرح اپنی جان ومال گنو اتے رہیں گے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں