علم ایک نور ہے اس کی روشنی میں اگر انسان سفر کرے تو یہ نور اس کی سیرت وکردار کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور یہ نور اساتذہ سے حاصل ہوتا ہے اور ان اساتذہ میں علمائے کرام بھی شامل ہیں علمائے کرام کو ان اساتذہ میں فوقیت حاصل ہے اس لیے کہ باقی اساتذہ صرف دنیاوی ترقی کی تعلیم دیتے ہیں جبکہ یہ ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائی کے طریقے سیکھاتے ہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روشناس کراتے ہیں اگر علمائے کرام نہ ہوتے تو شاید یہ دین ہم تک نہ پہنچ پاتا اور آج ہم (اللہ تعالیٰ معاف فرمائے)کسی اور دین کی پیروی کر رہے ہوتے سیدھی بات کرتا ہوں جس معاشرے میں ہمارے آباء واجداد نے زندگی بسر کی اس حساب سے تو آج ہم اپنے ہاتھوں سے (نعوذ باللہ) مورتیاں بناتے اور ان ہی کے سامنے سربسجود ہو جاتے ان کے سامنے آہ و زاری سے التجائیں کر رہے ہوتے ہمارے گھروں محلوں میں اذان کی بجائے گھنٹیاں بج رہی ہوتیں گائے کے پیشاب سے غسل کرتے اس سے شفا اور برکت کے متلاشی ہوتے اور یہ کھلی گمراہی تھی یہ ہماری بربادی تھی اس گمراہی، بربادی اور تاریکی سے کس نے نکالا اس گمراہی سے نکالنے والے علماء کرام ہی تھے آج ہم ہر داڑھی والے کو مولوی کہنا شروع کر دیتے ہیں وہ بھی حقارت سے حالانکہ داڑھی کے ساتھ علم کا تعلق نہیں اور نہ ہی امام مسجد کے ساتھ علم کا تعلق ایک بات سمجھنے والی ہے ہماری اکثر مساجد میں علماء کرام موجود ہی نہیں وہاں پر حفاظ کرام ہیں جنہوں نے پانچویں کلاس کے بعد حفظ کیا حافظ صاحب اور عام آدمی میں فرق صرف اتنا ہے کہ اس نے قرآن مجید کو کامل حفظ کیا ہوا ہے اور عام آدمی کو صرف چند سورتیں یاد ہیں باقی کوئی فرق نہیں کیونکہ حافظ صاحب کا دین اسلام کی تعلیمات سے دور دور کا واسطہ نہیں اور نہ ہی انہوں نے ترجمہ و تفسیر پڑھے اور نہ ہی حدیث مبارکہ اور نہ ہی فقہی مسائل سے انہیں واقفیت حاصل ہے چند مسائل کے علاؤہ اس کے بعد دوسرا درجہ خوش الحان نعت خوان حضرات کا ہے جو شروع شروع میں نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیش کرنے کے درمیان لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے مختلف واقعات بیان کرتے رہتے ہیں بعد ازاں ترقی کرتے ہوئے علماء کی فہرست میں شامل ہو جاتے ہیں حالانکہ دینی علوم سے ان کا بھی واسطہ نہیں تیسرا درجہ میں وہ مقررین شامل ہیں جنہوں نے دو تین سال تک کسی جامعہ میں پڑھا ہے فن خطابت کے رموز سے واقف ہیں اسی فن خطابت کی بنا پر کسی جامع مسجد میں خطابت کی ذمہ داری سنبھال لیتے ہیں ہر جمعہ پر میاں محمد بخش عارف کھڑی کے اشعار اور اولیاء کرام کے واقعات بڑی درد بھری آواز سے سناتے ہیں جس پر ہم سامعین عش عش کر اٹھتے ہیں جس سے ان کا نظام چلتا رہتا ہے چوتھا درجہ ان افراد کا ہے جنھوں نے کسی بھی جامعہ سے درس نظامی کا پورا نصاب پڑھ کر فراغت حاصل کی ہے ان کو عالم کا درجہ مل گیا ہے جیسے میڈیکل کا نصاب پڑھ کر فارغ التحصیل کو ڈاکٹر انجینئرنگ کا نصاب پڑھنے والے کو انجینئر کہا جاتا ہے لیکن ان کا بھی بعد از فراغت کتاب سے کم ہی واسطہ پڑتا ہے لیکن پھر بھی روز مرہ کے مسائل بخوبی جانتے ہیں لوگوں کو آگاہی فراہم کرتے ہیں یہ پانچواں درجہ اصل علماء کرام کا ہے جو قرآن و حدیث کا عمیق مطالعہ کرتے ہیں ان کے دن رات کتابوں کی ورق گردانی میں ہی بسر ہوتے ہیں ان کی زندگی نسلوں کو سنوارنے میں گزر جاتی ہے ان کی تحریر و تقریر قرآن وحدیث سے مزین ہوتی ہے یہ لوگ اصل میں انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث ہیں اور یہی علمائے ربانیین ہیں یہ ساری
تمہید اس لیے باندھی ہے کہ کچھ ایام پہلے ایک نام نہاد مفتی صاحب کی نا زیبا اور قبیح فعل کی ویڈیو منظر عام پر آئی جو قابل مذمت تھی یہ بات بھی تحقیق طلب تھی کہ وہ صاحب واقعی مفتی تھے بھی کہ نہیں کیونکہ آج کل سنی سنائی باتوں کو پھیلانا فیشن بن گیا ہے تحقیق کے لیے کسی کے پاس وقت نہیں ویڈیو آئی تو سوشل میڈیا کے ذریعے ہم نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور بلا تفریق تمام علمائے کرام پر طعن و تشنیع کے نشتر فرض عین سمجھ کر چلائے یہ کسی نے نہیں سوچا کہ آیا جس شخص کی وجہ سے قبیلے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اس شخص کا تعلق اس قبیلے سے ہے بھی کہ نہیں یا ہم صرف ظاہری صورت یا ظاہری نام سے دھوکا کھا رہے ہیں اگر تعلق ہے بھی تو یہ کہاں کا انصاف ہے کہ غلطی ایک کرے اور سزا پورے قبیلے کو دیں اگر غلطی ہوئی بھی ہے تو ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچئے کہ آخر وہ بھی انسان ہی ہیں وہ بھی خطا کے پتلے ہیں وہ فرشتے یا کوئی اور مخلوق نہیں کہ ان سے غلطی سرزد نہ ہو سکے یہ صحیح اور سچ ہے کہ ان کو اپنے مقام و مرتبے کا خیال رکھنا چاہیے قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہئیے ان کو تقوی و طہارت کے پابند ہونا چا ہیئے وہ معاشرے کے لیے نشان راہ ہوتے ہیں لوگ کو یقین ہوتا ہے کہ یہ نیک اور پارسا لوگ ہیں اسی لئے کسی پر کوئی مصیبت دکھ تکلیف نازل ہو تو اس موقع پر دعا کے لیے ان کو بلایا جاتا ہے اور ان سے دعا کروائی جاتی ہے اس یقین کے ساتھ کہ یہ اللہ کے نیک بندے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی دعا جلدی سن لیتا ہے لوگ ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں ان کی بات کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اگر ان سے غلطی ہو جائے تو عام آدمی ڈگمگا جاتا ہے لیکن پھر بھی وہ انسان ہیں اگر ان سے غلطی ہو جاتی ہے تو ان کو بھی معاشرے کے ایک فرد کی حیثیت سے ہی زیر بحث لایا جائے جیسے کسی استاد، ڈاکٹر، وکیل سے غلطی ہو جائے تو کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ سارے استاد ڈاکٹر یا وکیل ایسے ہوتے ہیں صرف علماء کے لیے یہ رویہ کیوں اس رویہ کی وجہ سے خواہ مخواہ علمائے حق کو بد نام نہ کریں اس سے وہ بد نام نہیں ہوتے بلکہ اسلام بدنام ہوتا ہے کہ شاید (نعوذ باللہ من ذالک) اسلام ایسی تعلیم دیتا ہے لوگ دین سیکھنے کے لیے ان کے قریب ہونے کی بجائے دور بھاگتے ہیں ان سے دور بھاگنے سے مراد دین سے دوری ہے اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت دے آمین۔
