424

سائیں محمد فیاض مداحوں کو ویران کر گئے

کاہرو کی دھرتی جنجووں کے جد امجد حضرت پیر سلطان احمد ثانی المعروف دادا پیر کالا رحمتہ اللہ علیہ کی قرار گاہ ہے اور کنڈیاری (سلطان خیل) اور میرا راجگان کے عین درمیان دادا جی ؒ کا مزار پرانوار ہے یہ علاقہ کاہروال جنجوعہ جو داداؒ کے بڑے بیٹے کی اولاد ہے ان کا مسکن ہے جبکہ باقی بیٹوں کی اولادیں کہوٹہ و کلرسیداں کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر ہیں میرا راجگان اور مٹور یوں تو جرنیلوں اور عسکری قیادت کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے اس علاقے نے بلاشبہ پاک و ہند میں عسکری و سیاسی قیادت فراہم کی لیکن یہیں سے وقت کے اولیاء اللہ اور پوٹھوہار کے ادب کے سرخیل بھی نکلے ہیں۔آج جس شخصیت کا ذکر مقصود ہے وہ راجہ محمد فیاض جنجوعہ کی ہے جنہیں آج دنیا سائیں فیاض ویران ؒ کے نام سے جانتی ہے آپ ماسٹر کریم داد جنجوعہ کے ہاں 25 مئی 1948 ء کو میرا تحصیل کہوٹہ میں پیدا ہوئے آپ تین بھائی اور ایک بہن میں دوسرے نمبر پر ہیں آپ کے والد محترم درس و تدریس کے شعبے سے منسلک تھے اس لیے آپ کا گھرانہ بھی تعلیم کی طرف راغب تھا اس لیے آپ نے قرآن مجید ناظرہ کی دینی تعلیم بھی اور نویں جماعت تک گورنمنٹ ہائی سکول مٹور میں دنیاوی تعلیم بھی حاصل کی۔تعلیم کے بعد کچھ وقت آپ نے سماجی رابطوں میں گزارے جس میں واقفان حال یہ کہتے ہیں کہ سائیں ؒ کا نفیس لباس جس میں بوسکی کی قمیض اور لٹھے کی شلوار نیچے”تلے” والی جوتی خوبصورت انداز تکلم انتہائی متانت اور سنجیدگی کے ساتھ گفتگو کرتے۔عملی زندگی میں 1965 ء میں پاکستان آرمی کی ایف ایف رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی کھیلوں میں حصہ لیا آپ نے کبڈی، باکسنگ، ہائی جمپ اور پیرا شوٹ میں نمایاں کارکردگی دکھائی لیکن طبع کا میلان نہ ہونے کی وجہ سے 1969 ء میں نوکری چھوڑ دی۔ 1971 ء کی پاک بھارت جنگ میں شریک ہوئے لیکن سقوطِ ڈھاکہ کے بعد نوکری کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا۔آپ نے شادی کے حوالے سے اوائل جوانی میں ہی والدہ محترمہ سے کہا کہ میں شادی نہیں کروں گا۔ بچپن ہی سے پوٹھوہاری ادب اور ثقافت کی طرف میلان تھا چُونکہ اس وقت شعراء میں نابغہ روزگار شخصیات انور فراق قریشی ؒ‘مرزا شیر زمان ؒ‘ماسٹر شریف نثار مرحوم و دیگر ایسے شعراء موجود تھے جنہوں نے اس زبان وادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں پوٹھوہاری بیت بازی کا عروج تھا آپ نے بھی شعر کہنے شروع کیے اور بقول راجہ معروف (کو آپ کے بچپن کے دوست ہیں) 1969 ء میں راولپنڈی جیل میں ایک دن سائیں ؒ نے مجھے کہا کہ یہ شعر لکھا ہے آپ نے باقاعدہ طور پر شعر کہنے شروع کیے لیکن کسی کی شاگردی اختیار نہیں کی حالانکہ اس حوالے سے بہت قصے مشہور ہیں کہ آپ ماسٹر نثار مرحوم کے ہاں گئے یا سردار خداداد دکھیا مرحوم کے شاگرد ہوئے لیکن بقول آپ کے برادرِ اصغر سائیں محمد اخلاص آپ کسی کے شاگرد نہیں ہوئے البتہ مرزا شیر زمانؒ سے ملاقات رہی دوستوں میں مشہور شاعر صدیق گمنام، عبدالخالق قلی مرحوم، ماسٹر دلپذیر شاد مرحوم‘ سائیں گل فیاض کیانی ؒ، راجہ مختار شاد شامل رہے جبکہ شعرخوان دوستوں میں راجہ ابراہیم اسیر سکنہ نمبل اور سائیں مہربان ڈڈیال آزاد کشمیر شامل رہے۔ آپ ؒ نے دو یا تین مشاعرے بھی پڑھے کھڑی شریف مٹور اور تھوہا خالصہ دربار پر آخری مشاعرہ تھا اس کے بعد آپ سامٹھی روڈ تھوہا گلہ موضع میرا میں جھگی نشین ہوئے اور دو سال تک زائرین بابا غلام بادشاہ ؒ نوتھیا شریف کی خدمت کرتے رہے۔ 1975 ء میں مکمل گوشہ نشینی اختیار کی جو تادم وصال یعنی وقت ظہر 31 دسمبر 2022 ء جاری وساری رہی۔ آپ کی نمازِ جنازہ یکم جنوری 2023 ء کو دن ایک بجے میرا کے وسیع وعریض میدان میں ادا کی گئی جس میں بلا مبالغہ ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ آپ کی تربت سامٹھی روڈ موضع میرا تحصیل کہوٹہ میں بنائی گئی جس کو آپ نے بقول سائیں محمد اخلاص خود مختص کر کے ”ویران آباد” کے نام سے موسوم کیا۔آپ نے شاعری میں ویران کے علاوہ رونقی، رونق، غازی، درویش، شیشہ، سورج، جاگ رانی، سمیت کم و بیش تیس کے قریب تخلص استعمال کیے۔ آپ کے اشعار زبان زد عام ہیں آپ کی شاعری کے کمال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی شاعری بوڑھوں جوانوں بچوں اور خواتین تک مقبول ہے آپ کی حیات ظاہری میں زائرین کا تانتا بندھا رہتا تھا اور یہی حالات اب بھی ہیں۔آپ کے خاندان کی روحانی نسبت نقیب اللہ شاہ قصوری رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ ہے اور آپ کے بڑے بھائی صوبیدار ماسٹر محمد الیاس دربار عالیہ قصور شریف کے خلیفہ مجاز بھی ہیں۔ آپ کے دوستوں میں صدیق گمنام، راجہ معروف پنگالہ، سائیں تاج میرا، راجہ ابراہیم اسیر، راجہ آزاد کاکا مٹور،راجہ مشتاق مندری بھلوٹ، حاجی تاج نارہ، ملک نثار نارہ، راجہ رضا مٹور اور نمبردار اکرام الحق مٹور شامل ہیں۔آپ کی دو کتابیں آپکی حیات میں منصہ شہود پر آئیں جن میں پہلی کتاب ”گلستانِ ویران” راقم الحروف نے مئی 2015ء میں تدوین کی جبکہ دوسری کتاب ” داستان ویران” 2022ء میں آئی ہے۔سنہ دو ہزار سے دو ہزار پندرہ تک ”جشنِ ویران رح” کی محافل انعقاد پذیر ہوتی رہیں جن میں پوٹھوہاری مشاعروں اور بیت بازی (شعرخوانی) کا انعقاد کیا جاتا رہا ہے جبکہ آخری محفل 2015ء کو ہوئی جس میں سائیں محمد فیاض ویران ؒ نے اپنا عبا (چغہ) برادر اصغر سائیں محمد اخلاص کو پہنایا۔ اس کے بعد بھی ماہانہ گیارہویں شریف کی محفل آپ کے آستانہ عالیہ پر ہوتی رہی ہے۔ آپ ؒ ایک عظیم صوفی شاعر، مجذوب، ہمہ جہت شخصیت اور اعلیٰ ترین کردار کے حامل تھے آپ نے اپنی تمام زندگی زکر الٰہی میں مشغول رہ کر گزاری جس کا ثبوت آپکے افکارِ بلند پایہ ہیں جن میں آپ نے ہمیشہ عشق و مستی اور محبت و اخوت کا درس اور پرچار کیا ہے۔ہم تمام محبان ویران اور اہلیانِ پوٹھوہار اربابِ اختیار سے یہ پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ میرا روڈ کو سائیں محمد فیاض ویران ؒ کے نام سے موسوم کر کے باقاعدہ اندراج کیا جائے۔آخر میں ایک سخن حضرت سائیں محمد فیاض ویران ؒکی مدح میں پیش خدمت قارئین ہے
درد دی نگری ویران ہو گئی
سائیں فیاض پوٹھوہار ویران کر گئے
بزمِ سخن کی بزمِ فقراء دے وی
سارے رنگ بے رنگ بے جان کر گئے
رہسن قصے موجود ہر دور اندر
ایسے لطف سیں درد بیان کر گئے
کیتی عشق دی شرح حقیر ایسے
طائرِ سخن نوں ہم زبان کرگئے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں