کسی ملک کی ترقی کا اندازا اس ملک کے تدریسی اداروں کے تعداد اور انکی کارکردگی سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے تدریسی ادارے ملک کے اندر ایک فیکٹری کی طرح کام کرتے ہیں جن میں نئی قوم کی تعمیر کی جاتی ہیں اگر یہ فیکٹری بہترین اور اس میں کام کرنے والے کاریگر (اساتذہ) محنتی ہوں گے تو نئی قوم بھی بہترین پیدا ہو گی لیکن اگر اساتذہ کرام اپنا کام درست طریقے سے انجام نہیں دیں گے تو معاملہ اس کے بر عکس ہو گا تدریس کا شعبہ ایک ایسا شعبہ ہے جس کا تعلق سرکارِ دو عالمؐ سے ملتا ہے کیونکہ آپؐ نے خود فرمایا کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا لیکن اس مقدس شعبے میں کچھ ایسے بھی اساتذہ موجود ہیں جنہوں نے اس مقدس شعبے کو کاروبار کا درجہ دے رکھا ہے اور ایسے اساتذہ بھی موجود ہیں جو نہ صرف ملک وقوم کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ نئی نسل کو بھی تباہی کے اندھیروں میں ڈھکیل دیتے ہیں پہلے پہل معلم کی شخصیت طالب علموں کے لیئے نمونہ ہوتی تھی جس کی طالب علم نقل اتارتے اور استاد کی طرح بننے کی کوشش کرتے تھے لیکن آج معاملہ بالکل برعکس ہے آج گورنمنٹ سکولوں کے کچھ اساتذہ میں یہ بات بھی دیکھنے کو آتی ہے کہ خود تو کسی گورنمنٹ ادارے میں پڑھا رہے ہوتے ہے اور انکے عزیز بھائی بیٹایا بیٹی کسی گورنمنٹ کے ادارے کی بجائے پرائیوٹ ادارے میں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں اسکی وجہ کیا ہے کیا ان اساتذہ کو اپنے آپ پر اور اپنے ادارے پر یقین نہیں جس میں وہ پڑھا رہے ہے یا ان اساتذہ کو ڈر ہے کہ کہیں ہمارے پول نہ کھل جائیں یا پھر انکو پیسے خرچ کرنے کا شوق ہوتا ہے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انکے بچے انکا کہا نہ مانتے ہوں ہمارے کچھ تعلیمی اداروں میں کچھ ایسے شریف قسم کے اساتذہ بھی موجود ہیں جو اپنے تعلیمی ادارے کو چھوڑ کر کسی پرائیوٹ ادارے میں پڑھاتے ہیں اور تنخوا ہ دونوں طرح سے وصول کرتے ہیں ہفتے میں ایک آدھ دن اپنے تعلیمی ادارے کا صرف اس لیئے رخ کرتے ہے کہ یہ دیکھ سکیں کہ انکی حاضری لگ رہی ہے یا نہیں آج کل تعلیمی اداروں میں جو ایک اور رحجان ہے وہ نقل کا ہے پچھلے کچھ سالوں سے جب پرائمری مڈل اور میٹرک کا رزلٹ خراب آرہا تھا تو متعلقہ ضلع کےDEO DCOاورEDOصاحبان نے اپنا رزلٹ بہتر کرنے کا سوچا اور اساتذہ پر دباو ڈالا کہ وہ رزلٹ بہتر کریں اساتذہ کرام جو حالانکہ پہلے ہی محنت سے پڑھا رہے تھے انہوں نے مسلسل محنت جاری رکھی لیکن جو اساتذہ محنت نہ کرا سکے یا جن سکولوں کے طالب علم کمزور تھے یا جو اپنے سکولوں کو ظاہری اچھا لباس پہنانا چاہتے تھے انہوں نے نقل کا سہارا لیا اور انکے بچوں نے بہترین نمبر لیئے یہ امر اساتذہ کی مجبوری کہا جائے یا ان کی بد قسمتی لیکن نقصان تو بچوں کا ہوا ان بچوں نے نقل سے نمبر لے تو لیئے لیکن انکے اندر اپنی جو صلاحیتں ہیں وہ مردہ ہو جائے گی اور اگر یہ کل کسی ادارے میں ملازم ہو بھی جائیں تو نہ صرف ادارے کیلئے بلکہ ملک کے لیے نقصان کا باعث بنیں گےDEO ‘DCO اور EDO صاحبان کے ساتھ اساتذہ کو بھی چاہیے تھا کہ مسلسل محنت سے اپنا رزلٹ بہتر کرتے نہ کہ یک دم اور بغیر محنت کے، کیونکہ کسی بزرگ نے فرمایا تھا کہ اگر دو گندے برتن ہوں ایک کو آپ تیزاب سے دھوئیں اور دوسرے کو صابن وغیرہ سے تو تیزاب سے دھلا ہوا برتن ظاہری تو بہت چمک دے رہا ہو گا لیکن یہ استعمال کے قابل نہ ہو گا جہاں ایک طرف DEO،DCO،EDOاور اساتذہ کی کچھ غلطیاں ہیں وہی پر گورنمنٹ کو بھی انتظام کرنے چاہیے مثلا اساتزہ کی تنخواہیں بڑھا ئی جائیں تا کہ وہ پرائیویٹ اداروں کی طرف نہ بھاگیں ایک قانون بنایا جائے کہ گورنمنٹ اساتذہ کے بچے پرائیوٹ اداروں میں نہیں پڑ ھ سکتے اس سے کم از کم یہ تو ہو گا کہ اساتذہ اپنے بچوں کی خاطر ہی زیادہ محنت سے پڑھائیں گے سکولوں کی مسلسل چیکنگ کی جائے اور چیکنگ کے دوران ان بچوں سے ٹیسٹ بھی لیا جائے اور اساتذہ کے بارے میں پوچھا جائے اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو بھی اپنے اندر احساس پیدا کرنا ہو گا اور بچوں کو صرف پڑھانے کی بجائے خود بھی عمل کرنا ہو گا کیو نکہ
عمل سے زندگی بنتی ہیں جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری۔{jcomments on}
171