95

رجب المرجب

اِنَّ عِدَّۃَ الشُّھُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْھَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ… (التوبۃ9:36)
بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں بارہ ہے جس روز سے اس نے زمین و آسمان پیدا فرمائے اُن میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔رجب عربی زبان کا لفظ ہے جو ’ترجیب‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی تعظیم کے ہیں۔جن چار مہینوں کو اسلام میں خاص ادب کے مہینے کہا گیا ہے یہ ان میں سے ایک ہے۔اِسے رجب المرجب بھی کہا جاتا ہے اور رجب ِمُضَر بھی۔ مرجب کا مطلب بھی تکریم ہی ہے اور یہ رجب کے معنی کی نسبت کے لحاظ میں کہا جاتا ہے جبکہ رجب مُضَر اس لیے کہا جانے لگا کہ عرب میں مُضَر نامی قبیلہ اس ماہ کی بہت زیادہ تعظیم کرتا تھاحتیٰ کہ اس میں غلو سے کام لیتا لہٰذا یہ مہینہ اس کی نسبت سے پکارا جانے لگا۔بعض اصحاب کا خیال ہے کہ عرب کے کچھ قبائل کسی اور مہینے کورجب کہتے تھے اس لیے حجۃالوداع کے موقع پر حرمت کے چار مہینوں کا ذکر کرتے ہوئے مِنھَااَربَعَۃٌ حُرُمٌ ثَلَا ثٌ مُتَوَالِیَا تٌ ذُو القَعدَۃِ و ذُو الحَجَّۃِ وَالمُحَرَّمُ وَرَجَبَُ مُضَرَ فرمایا تو ماہِ رجب بارے اس لیے خوب واضح فرما دیا وَرَجَبَُُ مُضَرَ الَّذِی بَینَ جُمَادَی وَ شَعبَانَ۔ (صحیح البخاری، باب قول اللہ تعالی وجوہ الخ)کہ وہ مہینہ رجب ہے جو قبیلہ مُضَر کی نسبت سے جانا جاتا ہے اور جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان آتا ہے۔امام شافعیؒ، امام زکریا بن محمد بن زکریا انصاریؒ، شیخ ابن مفلح حنبلیؒ نے جہاں فضیلت والی راتوں کا ذکر کیا ہے وہاں ماہِ رجب کی پہلی رات کو بھی ان میں شامل فرمایا ہے۔بہت سی روایات کے مطابق شب ِمعراج کو بھی اس مہینہ کی ستائیس تاریخ سے منسوب کیا گیا۔ماہِ رجب کی فضیلت کے مدِ نظر اس میں روزہ رکھنا باعثِ اجرو ثواب ہے لیکن بعض روایات کے مطابق نبی ئاکرم ﷺ اس ماہ میں مسلسل روزے نہیں رکھتے تھے بلکہ درمیان میں وقفہ فرما لیا کرتے۔کائناتِ ارض و سما میں ہر ذی روح اور بے روح کو اپنی استعداد کے مطابق معرفت ِباری سے نوازا گیا لیکن جسے ذاتِ باری کومطلوب و مقصود بنانے کاشرف حاصل ہوا وہ صرف اور صرف انسان ہے۔ اسے ملائکہ کی طرح ہر حاجت سے مبرا ہو کر فقط عبادت ہی کے لیے حیات نہیں رکھنا تھی۔ محض قیام و رکوع و سجود ہی میں نہیں رہنا تھا بلکہ بقائے حیات کے لیے بنیادی ضروریات کا محتاج ہونا تھا۔ اس کے نظام ہائے زندگی کے اصول و ضوابط میں حقوق ہی نہیں فرائض بھی شامل تھے۔یہاں اپنی ہر مخلوق کی ہر ضرورت کو ہر جگہ اور ہر وقت پوری کرنے والے رب العالمین نے اپنے اس خلیفۃ الارض کے زمیں پہ اترنے سے پہلے ہی اپنی معرفت اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے عبادت کے شغف و سجدہئ شوق کے شرف میں راہِ تسلیم و رضا پہ گامزن ہونے کے لیے تقسیمِ اوقات کا اہتمام فرما یا،گردشِ دوراں کو ماہ و سال میں تقسیم فرما دیا۔اس سب کے ساتھ ساتھ انسان کی استعدادِ طلب سے پیدا ہونے والی تڑپ کی تسکین کے لیے مہینوں کے سردار ’رمضان المبارک‘ کے علاوہ چار مہینے، راتوں میں سردار رات ’لیلۃالقدر‘ کے علاوہ چند راتیں اور ہفتے کے دنوں میں سے ایک دن’ جمعۃ المبارک‘ مقرر فرما دیا۔یوں تو کسی بھی وقت، کسی بھی لمحہ میں سنت ِ نبوی ﷺ کے مطابق کیا جانے والا ہر عمل حصولِ معرفت ِ باری سے شرف یاب فرماتا ہے اور اللہ کریم نے یہ موقع، یہ ذریعہ زندگی کے ایک ایک لمحہ میں رکھ دیا ہے۔کوئی بھی، کبھی بھی اپنے مقصدِ حیات کو پانا چاہے تو حیات کی ایک ایک ساعت سے فیض یاب ہو سکتا ہے لیکن خاص احترام اور خاص اہتمام سے عبادت کیے جانے والے مہینے اور دن بھی مقرر فرما دیے گئے اور حرمت والے ان چار مہینوں میں منع فرما دیا کہ جنگ نہ کی جائے۔ اگر جنگ جاری ہے تو روک دی جائے، صدقات دیے جائیں۔ یہی اہتمام زندگی کے دوسرے مہینوں میں خواہشِ حصولِ رضائے باری میں معاون ثابت ہوگا۔
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ]الرحمٰن55:13
قارئین کرام! وہ لمحے، وہ ساعتیں،وہ دن، وہ راتیں اور وہ مہینے جو قربِ الٰہی کے حصول کے لیے عطا فرما ئے گئے ہیں وہ اس چند روزہ زندگی میں عطائے باری ہیں، انعاماتِ الٰہی ہیں، احسانات ِ رب العالمین ہیں۔ انہیں روایات کی نظر کرنے کی بجائے، محض رسومات تک محدود کرنے کی بجائے، غنیمت جاننے کی ضرورت ہے۔ اگر حیات میں میسر آجائیں تو طلب ِ صادق کے ساتھ حصولِ قربِ الٰہی کی سعی میں گزارنے کی ضرورت ہے۔ وگرنہ ماہ و سال آ کر گزر ہی رہے ہیں۔حیاتِ مستعار، حیاتِ ابدی کی طرف رواں دواں ہے۔ ہمیں روئے زمین سے زیرِ زمین اترنے پہ مٹی میں مٹی نہیں ہو جانا۔ اس زمین کے سینے پہ کیا جانے والا ہمارا ایک ایک عمل اپنا نقش ثبت کر رہا ہے جو زیرِ زمیں ہمارے ساتھ اترے گا اورفیصلے کے دن ہمارے دائیں یا بائیں ہاتھ میں تھما دیا جائے گا۔!للہ کریم ہمیں اعمالِ صالح انجام دینے اور اپنی اپنی حیات کے ایک ایک لمحہ سے فیضاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں