
اس وقت ہمارے ملک کا بیشتر حصہ سیلاب سے متاثر ہے لوگ بھوک افلاس سمیت دیگر وبائی امراض سے مر رہے ہیں ایک ماہ سے زیادہ کا وقت گزر جانے کے باوجود تاحال بہت سے ایسے علاقے جہاں تاحال حکومتی امداد نہیں پہنچ سکی اور لوگ بے یارومددگار بیٹھے ہوئے ہیں خواہ صوبائی حکومتیں ہوں یا وفاقی کسی نے بھی اس سے نبٹنے کی کوئی حکمت عملی نہیں بنائی مگر اسکے علاوہ دوسری طرف حکومتی غفلت اور لاپرواہی سمیت انتظامیہ کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے سیلاب کے ساتھ ساتھ اب ایک اور مہلک وائرس ڈینگی نے پنجاب کے بیشتر علاقوں خاص طور پر راولپنڈی میں تباہی مچانا شروع کر دی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ تیزی سے اس کے وار بڑھتے چلے جارہا ہے یہ وائرس جو ایک مچھر کے کاٹنے سے انسانی جسم میں منتقل ہوتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے اسکو بیمار کر دیتا ہے اس مہلک وائرس نے سب سے زیادہ صوبہ پنجاب کو اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے جہاں مریضوں کی تعداد باقی صوبوں کی نسبت زیادہ ہے پنجاب کے چند بڑے شہروں میں اس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے اور روز سینکڑوں افراد اس کا شکار ہو رہے ہیں اگر ہم راولپنڈی شہر کی بات کریں تو یہاں کے تمام بڑے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ہوچکی ہے ہسپتالوں میں ڈینگی مریضوں کے لیے جگہ کم پڑ چکی ہے اور آئے روز مثبت کیسز کی شرع بھی کم ہونے کے بجائے بڑھتی چلی جارہی ہے مگر اس کے باوجود راولپنڈی انتظامیہ کوئی خاطر خواہ حکمت عملی نہیں بناسکی حالانکہ ڈینگی کی وبا جو گزشتہ کئی سالوں سے ہر سال سینکڑوں لوگوں کا اپنا شکار بناتی ہے جسکو انتظامیہ اور حکومت کی بروقت احتیاطی تدابیر اور سپرے سے روکا جاسکتا ہے یا اس سے وبا میں کمی آسکتی ہے کیونکہ بروقت سپرے سے مچھروں کی افزائش نہیں ہوتی اور انکا لاروا وقت سے پہلے ختم کر دیا جاتا ہے گزشتہ سال راولپنڈی میں انتظامیہ نے اسکو بروقت قابو پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام سر انجام دے ڈینگی ٹیموں کو متحرک کیا اور انتظامیہ جن میں ڈپٹی کمشنر کیپٹن انوار الحق اور انکی تمام ٹیم جن میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر میم ماہم آصف اور تمام اسسٹنٹ کمشنر بھی فیلڈ میں رہے اور ساری صورتحال کی خود نگرانی کرتے رہے جسکے نتیجے میں گزشتہ سال راولپنڈی میں ڈینگی کا کوئی بھی مریض سامنے نہیں آیا جو بہت ہی خوش آئند بات تھی لیکن گذشتہ سال کے مقابلے میں اس سال انتظامیہ کی ناقص حکمت عملی اور بروقت سپرے نہ کروانے کی وجہ سے ڈینگی وائرس نے ایسا حملہ کیا کے اب اس سے ہر گلی محلہ متاثر ہورہا ہے مریضوں کی تعداد دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے لیکن ایسی صورتحال کے باوجود تاحال راولپنڈی انتظامیہ کی جانب سے کوئی خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے جارہے نہ ہی اس وبا سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جارہے ہے جس سے لگے کہ شاید اب مریضوں کی تعداد کم ہوگی یا ختم ہوگی کیونکہ راولپنڈی شہر کے بیشتر گنجان آباد علاقے آج بھی کوڑے کا ڈھیر بنے ہوئے ہیں خالی پلاٹوں اور گراونڈ میں گھاس اور بھنگ وغیرہ کے انبار لگے ہوئے ہیں جن سے مچھروں کی مذید افزائش ہوتی ہے لیکن انکو کاٹنے یا صاف کرنے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جارہی اگر راولپنڈی انتظامیہ نے انکی طرف توجہ نہیں دی اور ہنگامی بنیادوں پرڈینگی سے نبرد آزما نہ ہوئے تو یہ وبا بڑھنے کا اندیشہ ہے کیونکہ مثبت کیسز کی شرع تیزی سے بڑھتی جارہی ہے ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے جگہ کم پڑ چکی ہے اس لیے انتظامیہ کو چا ہیے کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دیں اورڈینگی سے قابو پانے کے لیے قائم خصوصی محکمہ انسدادڈینگی کو بھی متحرک کریں کہ وہ اسکی روک تھام اور لوگوں میں اسکی آگاہی کے بارے میں باقاعدہ مہم چلائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس سے بچایا جاسکے تاکہ مثبت کیسز کی شرع میں بھی کمی واقع ہوسکے