113

راجہ عظمت جاوید،سماجی شخصیت

آج صبح ساڑھے تین بجے راجہ خالد صاحب ریٹائرڈ آفیسر ایف بی آر میرے گھر آئے اور میں اور راجہ خالد راجہ عظمت جاوید صاحب سے ملنے انکے گھر چلے گئے مگر ہم نے نکلنے سے پہلے معروف سیاسی و سماجی شخصیت راجہ عظمت جاوید صاحب کو فون کر کے کہا کہ آپ تیار ہو جائیں ہم آپ کو لے کر کسی جنگل میں جا کر کسی ڈھابے والے ہوٹل سے ناشتہ کریں گے جہاں سرد ہوا اور ارد گرد پرندے چہک رہے ہوں گے۔

کیونکہ میں نے راجہ عاصم جاوید سے اور میرے انکل راجہ عظمت جاوید سے ایک ماہ قبل کہا تھا کہ میں آپ سے ملاقات کرکے کچھ سیکھنا چاہتا ہوں۔ میں راجہ خالد آف بکرہ منڈی دونوں انکے گھر کے پاس پہنچ کر انہیں گاڑی میں بٹھایا اور صبح کی ٹھنڈی ہوا اور بہترین موسم دیکھتے ہوئے سب سے پہلے شکر پڑیاں چلے گئے اور وہاں بیٹھ کر راجہ عظمت صاحب سے بہت کچھ سیکھا۔ انہوں نے وہ وہ باتیں بتائیں جو میں نے چار ڈگریاں لیکر بھی نہ پہچان سکا۔

راجہ عظمت صاحب کے الفاط سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ” میرے پیارے بیٹے پروفیسر شاہد جمیل آپ نے دیکھا نہیں کہ آج کی گریجوایٹ ماں بچوں کو ٹک ٹاک پر لگا رہی ہے۔ مگر آج بھی کچھ عورتیں موجود ہیں جو اپنے آباؤ اجداد کے نقش قدم پر چل کر بچوں کی بہترین انداز میں پرورش کر رہی ہیں۔ مگر 100 میں سے 10 مائیں یہ سب کررہی ہیں اور باقی پڑھ لکھ کر بھی اپنی
اولاد کو بے ترتیب کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ پچھلے ادوار میں جائیں تو آپ سکتے میں آ جائیں گے کہ والدین جنہوں نے سکول کا منہ تک نہیں دیکھا انکی اولاد ڈاکٹر, انجینیئر اور آرمی آفیسرز بن چکی ہیں

کیونکہ انکے اندر آباؤ اجداد کی تربیت اور سکون تھا جو اب بہت کم دکھائی دیتا ہے”.راجہ عاصم کے والد گرامی راجہ عظمت جاوید سماجی اور سیاسی حوالے سے اپنی بہت پہچان رکھتے ہیں اور سیکٹر I/10 اسلام آباد میں مقیم ہیں اور اکثر انگلینڈ اپنے بیٹوں اور رشتے داروں سے ملنے جاتے رہتے
ہیں۔ آپ نے ساری زندگی ان لوگوں کے کام کیے جن کو کوئی پہچانتا بھی نہیں تھا اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو نیک اولاد سے نوازا جو آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں۔ وہ کہا جاتا ہے کہ تربیت وہی ملتی یے جو اولاد اپنے والدین کو عملی لحاظ سے کرتے ہوئے دیکھتی ہے۔

یاد رکھیں جو والدین اپنے بچوں کو زبان سے کہ کر سمجھاتے ہیں وہ تربیت ہر گز نہیں ہوتی۔ تربیت وہ ہوتی ہے جو والدین اپنی اولاد کے سامنے اپنی زوبان اور ہاتھوں سے اور چال چلن سے کرتے ہیں۔ جب میں نے راجہ عظمت کی ٹانگ پر ہاتھ رکھا تو مجھے اپنے والد گرامی یاد آ گئے اور اس وقت میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ انکل عظمت کی آنکھوں میں نمی اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ میرے ہاتھ کو وہ اپنی اولاد کے ہاتھ محسوس کر رہے تھے۔ جب میں نے خالد بھائی کی طرف دیکھا تو وہ بھی نہ جانے کن سوچوں میں گم نظر آ رہے تھے۔ پھر میں نے بات کو دوسری جانب لے گیا۔ اسکے بعد راجہ عظمت جاوید کہتے ہیں کہ جو انسان زیادہ بولتا ہے وہ عملی طور پر ناکام ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ جو لوگ دوستوں میں زیادہ بولتے وہ سٹیج پر جا کر (باقی صفحہ 3نمبر 01)
پریشاں ہو جاتے ہیں مگر وہ لوگ جو محفل میں کم بولتے ہیں انکی تقریر سامعین سن کر ششدر رہ جاتے ہیں۔ راجہ صاحب کہنے لگے کہ اگر کوئی مسئلہ یا کام پڑ جائے تو مجھے سب سے پہلے کہنا میں اپنا سب کچھ قربان کر کے آپکا معاملہ حل کروا کر خاموش ہو جاؤں گا انشاء اللہ۔ آپ ہر اس شخص کا کام کرتے ہیں جو کسی بھی پارٹی سے ہو مگر کسی کو پریشانی میں دیکھ کر خود سارا دن ساری رات سوگوار رہتے ہیں۔ جب تک اس شخص کا معاملہ حل نہیں کروا لیں انہیں سکون نہیں آتا۔ اسی لیے تو انکے چہرے سے ہر وقت مسکراہٹ محسوس ہوتی رہتی ہے۔ 65 برس سے اوپر عمر ہونے کے باوجود یہ بندہ جوان دکھائی دیتا ہے اور اسکی وجہ ہے دوسروں کی مشکلات میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر دوسروں کی پریشانی کو خوشی میں تبدیل کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور ساری زندگی ایسے ہی نظر آئے گا کیونکہ یہ سب کام انکے آباؤ اجداد بھی بہترین انداز میں کیا کرتے تھے اور وہ کام آج بھی جاری و ساری ہے اور قیامت تک اسی طرح چلتا رہے گا

انشاء اللہ۔ میں اور راجہ خالد صاحب انکے پاس تین گھنٹے بیٹھے رہے اور پھر کسی ہوٹل میں ناشتہ کیا مگر یہ تین گھنٹے 30 منٹ میں چلتے ہوئے دکھائی دیے۔ آپ کی باتوں نے مجھے ایسا سبق دیا کہ میں نے پنجاب یونیورسٹی سے 4 ڈگریاں لے رکھی ہیں اور میں بیشمار کالجز اور یونیورسٹیوں میں ہزاروں شاگردوں کو تعلیم دیتا رہا مگر انکے جو الفاظ تھے وہ وہی جملے تھے جو ہمارے دادا دادی اور نانا نانی کہتے تھے اور وہ اس وقت ہمیں سمجھ نہیں آےء مگر آج انہیں یاد کر کے دل خون کے آنسوں روتا ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ میرا مالک راجہ عظمت جاوید صاحب انکی ساری فیملی اور پوری برادری کو اتحاد و اتفاق میں رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور کوئی دکھ کوئی پریشانی انکے پاس سے بھی نہ گزرے۔ ایسے ہی مثبت انداز میں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دوسروں کے لیے آسانیاں بانٹنا نصیب کرے آمین۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں