دہشتگردی کے خلاف آپریشن نہیں جنگ کی ضرورت

پاکستان میں دہشتگردی کے تازہ واقعات نے ایک بار پھر قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ یہ مسئلہ محض کچھ علاقوں تک محدود نہیں بلکہ پورے ملک کی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ خضدار میں مسلح افراد نے ایک تعمیراتی کیمپ پر حملہ کر کے اٹھارہ مزدوروں کو اغوا کر لیا اور گاڑیاں نذر آتش کر دیں۔ اغوا شدگان کا تعلق سندھ سے تھا اور چند روز قبل مستونگ سے بھی نو مزدور اغوا ہوئے تھے، جس سے دو دن کے اندر اغوا شدگان کی تعداد ستائیس تک پہنچ گئی۔ اسی دوران ڈی آئی خان میں دو دھماکوں نے پولیس چیک پوسٹ کو تباہ کر دیا، جس میں ایس پی آپریشنز سمیت تین اہلکار شہید ہوئے۔ یہ واقعات صرف چند دنوں کے عرصے میں ہوئے اور یہ واضح کرتے ہیں کہ دہشتگرد ملک کی رگوں میں سرایت کر چکے ہیں اور ان کا خاتمہ فوری اور جامع کارروائی کے بغیر ممکن نہیں۔
دہشتگردی کے یہ واقعات محض جانی نقصان تک محدود نہیں رہتے، بلکہ یہ ملک کی معیشت، سرمایہ کاری اور معاشرتی استحکام کو بھی بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ اغوا، دھماکے اور حملے کاروباری سرگرمیوں کو مفلوج کر دیتے ہیں، مزدور اور سیکیورٹی اہلکار خطرے میں رہتے ہیں اور عام شہری اپنی روزمرہ زندگی میں خوف کے سائے تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے حالیہ حالات یہ بتاتے ہیں کہ دہشتگردوں کی سرگرمیاں نہ صرف مقامی سطح پر نقصان پہنچا رہی ہیں بلکہ پورے ملک میں خوف اور عدم تحفظ کے ماحول کو جنم دے رہی ہیں۔
پاکستان میں سیکیورٹی ادارے اس بات پر بار بار زور دیتے ہیں کہ دہشتگردوں کے خلاف کارروائی جاری ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ محدود آپریشنز یا وقتی ردعمل ان کی جڑیں ختم نہیں کر سکتے۔ دہشتگرد تنظیمیں اپنے نیٹ ورکس، مالی ذرائع اور پروپیگنڈے کے ذریعے پورے ملک میں اثر انداز ہوتی ہیں۔ ان کا خاتمہ صرف ایک یا دو کارروائیوں سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے ایک مربوط حکمت عملی اور مسلسل جنگ درکار ہے۔ اس جنگ میں نہ صرف فوج اور پولیس کی مشترکہ کارروائیاں شامل ہیں بلکہ اقتصادی، سماجی اور ذہنی سطح پر اقدامات بھی لازمی ہیں۔دہشتگردوں کے خاتمے میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی مصلحتیں اور حکومتی تاخیر ہیں۔اس تاخیر کا فائدہ دہشتگردوں کو ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے منصوبے بغیر کسی دباؤ کے جاری رکھ سکتے ہیں اور سیاسی قوتوں کو وقتی فائدہ پہنچتا ہے  لیکن ملک و قوم کو اس کا شدید خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔
دہشتگردی کے خاتمے کے لیے نہایت محدود آپریشنز کیے جاتے ہیں جو وقتی ہوتے ہیں کوئی واقعہ پیش آگیا تو وہاں آپریشن کر کے کچھ دہشتگردوں کو ہلاک کر دیا جاتا ہے یا کسی خاص علاقے میں محدود آپریشن کیا جاتا ہے یہ اقدامات دہشتگردوں کے خاتمے کے لیے ناکافی ہیں جس کی وجہ سے دہشتگردی کے ناسور سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو رہا ہے اور یہ بڑھتے جا رہے ہیں۔ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے ہمیں ایک جامع اور مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے جو آپریشن اور جنگ دونوں پر مشتمل ہو۔ آپریشن کے ذریعے دہشتگردوں کو میدان میں نشانہ بنایا جائے اور جنگ کے ذریعے ان کے مالی، سماجی اور ذہنی نیٹ ورک کو تباہ کیا جائے۔ اقتصادی ترقی، تعلیم اور عوامی شعور کے فروغ کے بغیر یہ جنگ مکمل نہیں ہو سکتی، خاص طور پر خیبرپختونخواہ کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان کے پسماندہ علاقوں کے عوام کو علم و شعور دینا اورساتھ روزگار کے مواقع فراہم کرنا بھی نہایت ضروری ہے تاکہ وہ دہشتگردوں کے ورغلاوے میں نہ آئیں۔ سخت قانونی نظام، شفاف عدالتی کارروائیاں اور عوامی شراکت داری دہشتگردوں کے لیے زمین تنگ کرنے کے لیے ضروری ہیں۔
اس کے علاوہ اپنی سرحدوں کی سخت نگرانی کی ضرورت ہے کہ وہاں سے کوئی دہشتگرد پاکستان میں داخل نہ ہو اور نہ ہی یہاں سے کوئی بھاگ کر وہاں پناہ لے۔ چاہے وہ افغانستان کا بارڈر ہو یا ایران کا دہشتگردوں کی نقل و حمل کے حوالے سے ان دونوں ممالک کی سرحدیں خطرناک ہیں جن پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ بھارتی دہشتگرد اور جاسوس بھی زیادہ تراپنی شناخت تبدیل کر کے انہی راستوں سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور دہشتگردی کو فروغ دیتے ہیں یا دہشتگردی کی کاروائیوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ جو پاکستان میں شدید جانی و مالی نقصانات کا باعث بن رہا ہے۔
حالیہ واقعات یہ پیغام دیتے ہیں کہ اب کوئی وقت ضائع نہیں کیا جا سکتا۔ دہشتگردی کا خاتمہ ایک وقتی کارروائی یا سیاسی نعرہ نہیں بلکہ یہ ایک مسلسل عزم اور عملی اقدام کا متقاضی ہے۔ اگر ریاستی ادارے متحد ہو کر دہشتگردی کے نیٹ ورک کو ہر سطح پر نشانہ بنائیں تو ملک میں امن اور استحکام ممکن ہے اور عوام کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ دہشتگردی کا مکمل خاتمہ تبھی ممکن ہے جب آپریشن اور جنگ دونوں کو ساتھ لے کر ایک مربوط اور سنجیدہ حکمت عملی کے تحت اس مسئلے کا حل تلاش کیا جائے۔
ضیاء الرحمن ضیاءؔ