دھرنا مظاہرین اور پولیس تصادم کا آنکھوں دیکھا حال 240

دھرنا مظاہرین اور پولیس تصادم کا آنکھوں دیکھا حال

آج کل ملک بھر میں تحریک لبیک پاکستان کے دھرنے اور مظاہرے جاری ہیں کہیں پر پولیس اور رینجرز کی مدد سے انکو ہٹوا دیا گیا ہے تو کہیں پر تاحال دھرنے جاری ہیں یہ مظاہرے تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ علامہ سعد حسین رضوی کی گرفتاری کے بعد ہوئے جن کو گرفتار اس وجہ سے کیا گیا کہ انھوں نے 20 تاریخ کی ڈیڈ لائن دی ہوئی تھی کہ حکومت نے جو معائدہ کیا ہے فرانس کے سفیر کو ملک سے بدر کیا جائے اور فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے اس پر عمل درآمد نہیں ہورہا تھا حکومت کی ناقص حکمت عملی کے سبب اس معاملے کو جان بوجھ کر الجھایا گیا اور مذکرات کے بجائے پر تشدد طریقے سے اس سے نبٹا گیا پولیس ہو یا مظاہرین دونوں ہی ہمارے اپنے ہیں پولیس والوں پر تشدد غیر قانونونی تھا لیکن پولیس والے جیسے مار رہے تھے وہ بھی کئی قانون میں نہیں لکھا،دکھ اس بات کا زخم جسکو بھی آئے گا وہ اس ملک کا بیٹا ہے فوت دونوں میں سے جو بھی ہوا اسکا نقصان اس ملک اور اسکے خاندان کو ہوگا دونوں طرف ہمارے اپنے کھڑے تھے لڑائی کی وجہ ایک طرف سے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق اور ناموس کی حفاظت تودوسری طرف سرکاری ڈیوٹی پولیس والے بھی مسلمان ہیں اصل میں قصور دونوں کو لڑانے والے کا ہے جس کے سبب آج ایسی صورتحال پیدا ہوچکی ہے یہ ڈائری لکھنے کی نوبت کیوں آئی اور اس کے بعد میرے ساتھ کیا ہونے والا یہ میں نہیں جانتا کیونکہ اس معاملے پر ہمارے ملک میں میڈیا کی زبان بندی ہے ایسے میں سچ بولنا اور وہ ہضم ہوجانا بہت مشکل ہوتا ہے ان دھرنوں کے بعد حکومت کی میڈیا کو سچ نہ دکھانے کی پالیسی کے سبب حقائق لوگوں تک نہیں پہنچ پا رہے کہ اصل میں معاملہ ہے کیا اور اس میں قصور کس کا ہے دوسرا سوشل میڈیا کو جیسے ہی آپ کھولیں تو آپ کی نظر سے وہ چیزیں تصاویر تحریر گزرے گی جو حقائق کے بالکل برعکس ہے مگر جو بھی انسان انکو دیکھتا ہے وہ یہی سمجھتا کہ شاید یہ جو کچھ دکھایا جارہا ہے وہ سب حقائق پر مبنی ہے مگر ایسا نہیں ہے میں نے کوشش کی ہے کہ آپکو ان اصل حقائق سے آگاہ کروں جو میں نے خود وہاں پر جاکر وقت گزار کے دیکھے ہیں کہ اصل میں معاملہ ہے کیا؟ تحریک لبیک پاکستان کا لیاقت باغ میں دھرنا جسکی قیادت شمالی پنجاب کے امیر پیر سید عنایت الحق شاہ سمیت دیگر قائدین کر رہے تھے اس دھرنے میں جانے کا مقصد ہی یہی تھا کہ جو اصل حقائق ان سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے کہ جو کچھ آپکو سوشل میڈیا پر دکھایا جارہا ہے یا آپ دیکھ رہے ہیں اس میں کتنی سچائی ہے دھرنے میں جاکر دیکھا کہ تحریک لبیک پاکستان کے کارکن نہایت ہی پر امن اور شائستگی کے ساتھ بیٹھے ہوئے اور زیادہ تعداد میں روڈ کنارے یا میٹرو سٹیشن پر سوئے ہوئے تھے کیونکہ رات بھر کے وہ جاگے ہوئے تھے اور جو جاگ رہے تھے وہ بھی محفل نعت میں مشغول تھے روڈ کے دونوں اطراف میں دھرنے کے شرکاء کے کچھ فاصلے پر دس سے پندرہ افراد کھڑے تھے جنھوں نے راستہ بند کیا ہوا تھا کہ آگے دھرنا ہو رہا ہے آپ متبادل راستہ استعمال کریں وہاں پر موجود جب لوگوں سے بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ صبح نماز کی ادائیگی کے دوران پولیس کی جانب سے شیل فائر کیے گئے اور گولیاں بھی ماری گئی جس کے خول سمیت گولیاں بھی انکے پاس موجود تھی اور جو شیل فائر کیے گئے انکی بھی بہت بڑی تعداد وہاں پر موجود تھی مگر انکے جوابی حملے سے وہ منتشر ہوگئے اور بھاگ گئے اس کے بعد جو سوشل میڈیا سمیت ہمارا میڈیا چیخ چیخ کر بول رہا ہے کہ ایمبولینس کو راستہ نہیں دیا گیا اور مریض ایمبولینس میں سریس حالت میں موجود تھے مگر ہم نے دیکھا کہ مری روڈ جہاں پر تمام بڑے سرکاری اور پرائیوٹ ہسپتال ہونے کے سبب مریضوں کی آمدورفت ہوتی ہے اور سینکڑوں کی تعداد میں ایمبولینسز وہاں سے گزرتی ہیں وہاں پر دھرنے کے مظاہرین باقاعدہ ایمبولنس کو راستہ دے رہے تھے نہ صرف ایمبولینس بلکہ جن گاڑیوں یا موٹر سائیکل پر خواتین یا بچے ہوتے انکو بھی راستہ دیا جاتا کسی بھی ایمبولینس یاخواتین کو وہاں پر روکا نہیں گیا یہ بات کہ راستہ نہیں دیتے یہ سراسر غلط ہے اس کے علاوہ ایک اور بات کے میڈیا سمیت سوشل میڈیا جو اس دھرنے کے مظاہرین کے خلاف ہوتی ہے کہ پولیس کو انھوں نے بہت مارا حالانکہ کئی جگہ پر ہم نے دیکھا دھرنا مظاہرین اور پولیس اہلکار ایک ہی جگہ نماز پڑھ رہے اور کئی جگہ پر مظاہرین کھانے کے لیے بھی انکو دے رہے اس چیز سے ہٹ کر کے کون صحیح اور کون غلط ہے یہ دونوں ہی اس ملک کے شہری ہیں اور دوسری بات جو سمجھ نہیں آتی لوگوں کی کہ پولیس والے انکے گلے میں ہار ڈالنے تو نہیں آتے کہ یہ ان پر پھول برسائے لوگ کہتے مظاہرین کے پاس ڈنڈے تو اگر دھرنے میں مظاہرین کے حساب سے دیکھا جائے تو جو وہاں پر نظر آیا اگر سو مظاہرین ہیں تو ہر سو میں سے 5 کے پاس ڈنڈا ہوگا باقی کسی کے پاس ڈنڈا نہیں تھا نہ ہی اور کسی قسم کی چیز جس سے وہ اپنے آپ کو بچاسکیں باقی جہاں پر پولیس پر حملے کی بات ہے تو پولیس والے انکے گلے میں ہار ڈالنے تو نہیں آتے کہ یہ ان سے نرمی سے پیش آئیں وہ آنسو گیس کے شیل مار رہے تھے اور فائرنگ کر رہے تھے ان کے پاس اپنے بچاو کا واحد راستہ ڈنڈے یا پتھر ہی تھے جو یہ لوگ استعمال کر رہے تھے اگر زخمی پولیس ملزمان ہوئے ہیں تو اس سے کئی گنا زیادہ تعداد میں مظاہرین بھی زخمی ہوئے ہیں بلکہ دھرنا مظاہرین کی ایک اہم بات کہ جب دونوں جانب سے جھڑپ ہوتی اس دوران پولیس کے بہت سے ملازم جن میں ایس ایچ او سمیت دیگر ملازم بھی انکے ہتھے چڑ جاتے تو یہ لوگ پولیس کی طرح ان پر تشدد نہیں کرتے بلکہ دھرنے کی انتظامیہ کے حکم پر انکو خاموشی سے جانے دیا جاتا تھا حالانکہ کئی جگہوں پر پولیس کا رویہ اس کے بالکل برعکس تھا کہ انکے ہتھے جو بھی چڑھ جاتا وہ اسکو شدید تشدد کا نشانہ بناتے بلکہ اکثر جگہوں پر تو تشدد کرنے سے مظاہرین جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اس کے علاوہ ہماری عوام کو یہ نظر نہیں آتا کہ پولیس نے ایک جگہ پر تو بکتر بند گاڑی ہی مظاہرین پر چڑھا دی جس کے نتیجے میں دو سے تین افراد فوت ہوئے میں پوچھنا چاہوں گا کہ کیا وہ کسی کی اولاد نہیں یا انکے گھر کوئی نہیں جنکو گاڑی کے نیچے کچل کر مار دیا گیا پولیس کے رویے کے برعکس شرکاء دھرنا کا رویہ بالکل مختلف تھا اب میں لفظ شہید نہیں استعمال کر رہا کہ دونوں طرف مسلمان تھے باقی اللہ پاک کی ذات بہتر جانتی کہ کون راہ حق پر اس لیے میرے یا آپ کے کہنے سے کچھ نہیں ہوتا اگر چند اموات پولیس کی جانب سے بھی ہوئی مگر درجنوں جوان مظاہرین کی طرف سے بھی فوت ہوئے یہ دونوں طرف سے فوت ہونے والے ہمارے بھائی ہیں ہمارے ملک کا اثاثہ تھے اس کے علاوہ ایک اہم بات جو دھرنے کے دوران دیکھی جو اکثر لوگ کہتے انکو فنڈنگ کہاں سے ہوتی وہاں دیکھنے میں آیا کہ دن بھر مختلف مخیر حضرات تاجر تنظیموں کی طرف سے کھانا، کجھوریں،پھل آتے رہے یہاں تک کہ ٹافیاں، بسکٹ تک مختلف لوگوں نے اپنی مدد آپ دھرنے کے شرکاء میں تقسیم کیں اس کے علاوہ وہ باتیں جو اس سے ہٹ کر ہیں کہ سوشل میڈیا پر کچھ تصاویر اور ویڈیو وائرل کی جارہی ہیں جنکی میں ایک رکشہ جل رہا ہے کہ یہ مظاہرین نے جلایا جبکہ وہ رکشہ آج سے چند سال قبل ایک مزدور نے کراچی شہر میں بیروزگاری سے تنگ آکر خود جلایا تھا اسی طرح ایمبولنس دکھائی دے رہی ٹوٹی ہوئی مگر اس کے ساتھ کھڑے افراد دیکھے تو معلوم ہوگا کہ وہ سردیوں کی کوئی پرانی تصاویر جس میں کھڑے لوگوں نے کوٹ اور سویٹر پہنے ہوئے یہ وہ کچھ حقائق ہیں جو میں نے خود دیکھے ہیں یعنی آنکھوں دیکھا حال ہے جو سوشل میڈیا پر جاری پروپیگنڈے کے بالکل منافی ہے باقی کون حق پر اور کون اس کے خلاف اور کون اللہ پاک کی بارگاہ میں مقبول اسکا فیصلہ تو وہی کرے گا

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں