2013کے جنرل الیکشن ہوئے اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد ملک میں نئی نمودار ہونے والی سیاسی طاقت پی ٹی آئی نے دھندلی کا شور مچانا شروع کیا جس کے بعد بہت سے لے دے ہوئی کئی لوگ اس بات کے قائل تھے کہ شاید اتنی دھاندلی ہوئی نہیں جتنا شور مچایا گیا مگر بعد ازاں دھرنے اور دھرنے کے بعد جو پی ٹی آئی کے کہنے پر چار حلقے کھولے گئے تو یہ بڑی حقیقت سامنے آ ئی کے جو بات پی ٹی آئی والے کہہ رہے تھے اس میں کافی حد تک سچائی تھی دوسرے ضمنی الیکشن میں جس طرح لودھراں میں پی ٹی آئی امیدوار اور ووٹرز کے لئے مشکلات پیدا کی گئی اس میں نا صرف حکومت ملوث دیکھائی دی بلکہ اس میں الیکشن کمیشن کے حکام بھی واضح طور پر ملوث دیکھائی دے رہے ہیں اس طرح اگر الیکشن کمیشن حکومت وقت کی طرف داری کرئے گا تو جو بھی الیکشن ہوں گے وہ متنازعہ ہی تصور ہوں گے چاہیے ان کے لئے کوئی سے بھی اقدامات کر لیے جائیں ایک طرف جہانگیر خان جن کا انتخابی نشان بلے باز تھا اور دوسری طرف جہانگیر خان ترین جن کا انتخابی نشان بلا اگر کسی تیسرے اور غیر جابند دار فریق سے بھی پوچھا جائے تو وہ بھی یہ بتا سکتاہے کہ یہ وہی سیاست ہے جو ماضی میں ہوتی رہی ہے جس کی وجہ سے آج ہم باقی دنیا سے بہت پیچھے ہیں سیاست دان اسی وجہ سے معاشرے کے تمام طبقات میں سب سے زیادہ بدنام ہیں اس کی وجوہات ایسے ہی حالات اور واقعات ہیں جیسے لودھراں میں دیکھنے میں آ ئے ہیں ن لیگ عرصہ دراز سے سیاست میں ہے اور پی ٹی آئی تو ابھی اس کی عمر کے نصف میں بھی نہیں مگر جس طرح ریاست کا مقابلہ پی ٹی آئی کر رہی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں اگر اس ملک میں فری ایند فئیر الیکشن ہو جائیں تو یقین جانیے لوگ ایسی جماعتوں کا جو الیکشن کمیشن پر اور بعد ازاں ریاستی مشینری کا استعمال کر کے لوگوں کا مینڈیٹ چوری کرتے ہیں ان کا ایسا صفایا کر دیں گے جیسے حال ہی میں ہوتا نظر آ رہا ہے بات کریں اگر عمران خان کی تو وہ بلاشبہ پاکستان میں ایک ایسا سیاست دان ہے جو ملکی سیاست سے اس گند کو پاک کرنے کا کام کر رہا ہے جہاں اشرفیہ کی حکومت ہے جہاں ایک غریب کھبی بھی نہیں نیشنل اسمبلی کا ممبر نہیں بن سکتا اگر کوئی اپنی قسمت کے بل بوتے پر چلا بھی جائے تو اس غریب کے لئے کام کرنے نہیں دیا جاتا اور اس کو ایسے ٹریٹ کیا جاتاہے جیسے ہندؤں میں شودر ں کو ۔حکومتی جماعت جو اس وقت ملک کی سب سے بڑی جماعت ہونے کی دعوے دار ہے ایسی اوچھی حرکتوں کی وجہ سے کھبی بھی لوگوں کے دلوں کی دھڑکن نہیں بن سکتی اس سے اس کی مقبولیت کا گراف بڑھا نہیں بلکہ کم ہوگاکیونکہ اب لوگ باشعور ہو چکے ہیں وہ سیاست کی اونچ نیچ کو سمجھنے لگے ہیں کون تیس، تیس سال سے لگاتار حکومت کر کے بھی ہمارے ملک کے حالات بدلنے کی نوید سناتارہتا ہے اور کون ہے جس نے پہلی ہی بار میں وہ کام کر دیکھایاجو وہ لوگ تیس، تیس سال میں نہ کر سکے اب وقت آگیا ہے کہ لوگ اس حق کے لئے آواز آٹھائیں جو حق ان سے انجانے میں چھینا جاتا رہا ہے سچ کو اگرکسی بھی طرح سے چھپا لیا جائے تو کھبی نہ کھبی وہ سامنے آ ہی جاتا ہے ایسے ہی اگر لوگوں کے حقوق کو غضب کر لیا جائے تو ایسا بھی وقت آتا ہے کہ لوگ ایک نہ ایک دن اپنے حق تک پہنچ ہی جاتے ہیں اب بھی وقت ہے ریاستی ادارے ملک کو درست ڈگر پر چلانے کے لئے اپنا وہ کردار ادا کریں جو ملکی آئین میں درج ہے کسی ایک جماعت کی طرف داری کر کے وہ ایک ایسا گناہ کبیرہ کر رہے ہیں جس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلیں بھگتیں گی اس لئے ضرورت اس امر کی ہے ملکی کی سب سے بڑی عدالت اس بات کا نوٹس لے کہ یہ سب کیسے اور کیوں ہو ا ہے جب ملک میں ایک ایسی فضا ء قائم ہو چکی ہے کہ تمام ا دارے اپنی حدود سے تجاوز نہیں کریں گے تو کیونکہ ایسے واقعات ملکی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں ایسے میں تو وزیر اعظم صاحب کو بھی ایکشن لینا چاہیے مگر وہ کیوں لیں گے لگتا تو ایس ہی ہے کہ وہ اور ان کی پوری جماعت کو پی ٹی آئی سے شدید خطرات ہیں اس لئے ہر کام میں وہ ان کی سیاست سے کیڑے نکالتے نظر آ تے ہیں مگر اپنی ہر خامی کو وہ خوبی بنا کر پیش کر رہے ہیں اگر ایسا ہی رہا تو پی ٹی آئی کے لئے اگلی بار وہ ٹارگٹ حاصل کرنا انتہائی آسان ہو جائے گا جو اس بار شاید ان سے کچھ دور ہو گیا ہے ۔اس ہونے والی بے ضابطگیوں کے بارے میں عوام کیا کہیں اور کس سے کہیں حالیہ ضمنی انتخابات میں اگر بات کی جائے الیکشن کمیشن کی تو یہ بات سامنے آ تی ہے کہ لاکھ کوشش کر لی جائے کہ ملکی ادارے غیر جانبدار ہو سکیں لاکھ کوشش کر لی جائے کہ حکومت غیر جانبدار ہو جائے مگر کیا کریں کہ ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں سب بکتا نظر آتا ہے ملک صیح معانوں میں جب ہی ترقی کرے گا جب ہم لوگ ان بکاؤ لوگوں سے چھٹکارا حاصل کر لے گے ورنہ دوسری صورت میں ملک کو بنے آج پینسٹھ سال ہونے کو اگر مذید ایک سو پینسٹھ سال بھی لگے رہے تو قائد اعظم کا وہ پاکستان نہیں بنا سکیں گے جس کا خواب علامہ اقبالؒ نے دیکھا تھا اور جسے عملی جامہ قائد اعظم نے پہنایا تھا مگر بعد ازاں کچھ ایسے لوگ ہم پر مسلط ہو گے جن کے مفادات میں اولین ترجیح ملک پاکستان نہیں تھا ۔{jcomments on}
92