160

دُعاسے مقدر بدلتے ہیں

قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ہم انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں پھر اللہ تعالیٰ کااپنے بندوں کا اپنے سامنے جھکنا‘عاجزی و انکساری سے مانگنا اور بھی زیادہ محبوب ہے رب العالمین نے قرآنِ مجید میں اپنے محبوب اور پیارے انبیاء کرام علیہم السلام کے واقعات کوبیان کرکہ پوری انسانیت کویہ بات سمجھا دی کہ اللہ تعالیٰ یہ واقعات اس لئے بیان فرماتا ہے کہ لوگ اس سے سبق حاصل کریں اور سیدھے راستہ پر چلتے ہوئے اللہ کہ حضور سجدہ ریز ہوجائیں تو پھر انکی ناصرف ہر مراد پوری ہوگی بلکہ خالق کائنات سے جوبھی مانگا جائیگاوہ انکو ضرور عطاء کرے گا نیاکا نظام ہے کہ جب انسان کسی دوسرے انسان سے کچھ مانگتاہے تووہ ناراض ہوتاہے جبکہ اللہ سے دعا مانگی جائے یا التجاء کی جائے تو اللہ خوش ہوتاہے نا مانگنے پر اللہ ناراض ہوتاہے چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام جب جنت سے دنیا پر تشریف لائے تو انہوں نے رب العزت سے اپنی بھول پر معافی مانگی اللہ نے انکی فریاد سن کر انکے مقام و مرتبہ میں مزید اضافہ کردیا پھر دیگر انبیاء کرام علیہم السلام و دیگر اقوام کہ حال و احوال بھی قرآن مجید میں تفصیلاً مذکور ہیں‘حضرت نوح علیہ السلام کا طوفان سے بچنااور اس پر بہترین حکمتِ عملی اپنانا، مشہور صابر و شاکر نبی حضرت ایوب علیہ السلام کا قصہ بھی قرآن مجید نے ذکرکیاکہ اللہ نے اپنے اس پیارے اور لاڈلے نبی کو پے پناہ مال و دولت،اور دنیاکی بیشمار خوشیوں اور نعمتوں سے نوازا تھا پھر اللہ پاک نے ان کو آزمایا۔ ان سے کچھ وقت کیلئے اپنی نعمتیں ان سے دور کر دیں بہت ساری اولاد تھی اور ساری ایک ساتھ فوت ہوگئی وسیع و عریض رقبے پر ان کی فصلیں تھیں جو جل کر راکھ ہوگئی اور اللہ نے ان کو بیماری میں مبتلا کردیا جس سے انکے اپنے قریبی بھی دور ہوگئے پھرحضرت ایوب علیہ السلام نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کی اور اللہ سے اپنے لئے رحم کی درخواست کی قرآن مجید نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ”ایوب کو یاد کرو جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے بہت تکلیف ہو رہی ہے اور تو تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے”(سورۃ الأنبیاء)اللہ پاک نے حضرت ایوب علیہ السلام کی دعا قبول کرلی اور حضرت ایوب علیہ السلام کو صحت یاب بھی کردیا اور ان کو پہلے سے بھی زیادہ کئی گنا زیادہ دولت اور شان و شوکت عطا کی پھر اللہ نے یہ بھی بیان کیاکہ”ہم نے ان کی دعا قبول کرلی اور جو ان کو تکلیف تھی وہ دور کردی اور ان کو بال بچے بھی عطا فرمائے”(سورہ الانبیاء،)اسی طرح اللہ نے قرآن میں حضرت زکریا علیہ السلام کا واقعہ بھی ذکر کیاحضرت زکریا علیہ السلام کی بیوی بانجھ تھی وہ بچے پیدا نہیں کرسکتی تھی حضرت زکریا علیہ السلام بوڑھے ہوگئے پوری عمر گزر گئی بچے نہیں تھے تو ایک دن رب کے حضور اپنے اللہ سے دعا کی یااللہ اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں، میری بیوی بھی بچے پیدا نہیں کر سکتی، یا اللہ تو مجھے بڑھاپے کا سہارا دے دے اور اللہ نے دعا قبول کرلی اور اسی بیوی میں سے بچہ دے دیا جو بچے پیدا کر ہی نہیں سکتی تھی اور پھر حضرت زکریا علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے کہا ”اے میرے رب میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا”(سورہ مریم)”جب اس نے اپنے رب کو آہستہ سے پکارا ”اور کہا اے میرے رب میری ہڈیاں بڑھاپے کے سبب کمزور ہو گئی ہیں میری بیوی بانجھ ہے تو مجھے اپنے پاس سے ایک وارث عطا فرما”اے زکریا ہم تجھے خوشی سناتے ہیں ایک لڑکے کی جن کا نام یحییٰ ہے”عرض کی اے میرے رب! میرے لڑکا کہاں سے ہوگا میری عورت تو بانجھ ہے اور میں بڑھاپے سے سوکھ جانے کی حالت کو پہنچ گیا ہوں ”حکم ہوا کہ اسی طرح ہوگا کہ مجھے یہ آسان ہے اور میں پہلے تم کو بھی تو پیدا کرچکا ہوں اور تم کچھ چیز نہ تھے”(القرآن، سورہ مریم)پھر قرآن میں اللہ نے حضرت یونس علیہ السلام کا واقعہ ذکر کیا کہ جب وہ مچھلی کے پیٹ میں گئے تو بے بسی کا یہ عالم تھا قرآن کہہ رہا کہ وہ تین اندھیروں کے پیٹ میں تھے ایک رات کا اندھیرا‘ دوسرا سمندر کے نیچے گہرائی کا اندھیرا اور تیسرا مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا اور پھر حضرت یونس علیہ السلام نے بے بسی میں اللہ کو پکارا”اندھیرے میں اللہ کو پکارنے لگے کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو پاک ہے بے شک میں ہی قصوروار ہوں ”(القرآن، سورۃ الانبیاء)اللہ پاک فرما رہے ہیں ہم نے یونس علیہ السلام کاواقعہ ذکر کیا اور انکو وہاں سے نکالا جہاں سے نکلنے کے سارے راستے بند تھے”تو ہم نے ان کی پکار سن لی اور انکو غم سے نجات بخشی (القرآن)اللہ وہ ذات ہے جس نے موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی گود میں پال کر دکھایا،پھر سمندر میں پانی پر چلاکر انکو نجات دی جبکہ اسی پانی میں فرعون کوغرق کیا اسماعیل علیہ السلام کو چھری کے نیچے بچا کر دکھایا، ابراہیم علیہ السلام کو جلتی آگ میں بچا کر دکھایا، مریم کو بن باپ کے بیٹا دے کر دکھایا، حضرت یوسف علیہ السلام کو ایک قیدی سے بادشاہ بنا کر دکھایا، حضرت یوسف علیہ سلام کنواں میں صحیح سلامت رہنے کہ بعد تخت پر بٹھاکردکھایا اور جو کوئی بھی اللہ پر بھروسہ کرے گا تو اللہ اس کے لیے کافی ہے حضور رحمت العالمینﷺ نے ختم نبوت کا تاج سر پر سجانے اور محبوب خدا کادرجہ پالینے کہ بعد بھی اپنے رب کہ ہاں ساری ساری رات سجدہ ریز رہتے ام المومنین نے عرض کی کہ اے اللہ کہ رسول آپ کو تواللہ نے بلند وبالا رتبہ عطاء فرمایا ہے آپ تو بخشے بخشائیں ہیں آپ کو کیا ضرورت ہے تو حضور اکرم شفیع اعظمﷺ نے فرمایا کہ کیا میں اپنے رب کا شکرگزار بندہ نابنوں اس لیے ہمیں اللہ تبارک و تعالیٰ سے ہر وقت مانگتے رہنا چاہیے۔ اللہ کے لئے کیا مشکل ہے۔ اللہ کی ذات تو وہ ہے جو ناکامیوں میں بھی کامیابی پیدا کر سکتی ہے کیونکہ میرے اللہ نے خود کہا ”جب کوئی ٹوٹ کر تڑپ کے مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں اس کو تکلیف کو دور کر دیتا ہوں صرف یقین ہونا چاہیے اور اس ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے اگر ساری زندگی بھی گناہوں سے بھری ہوئی تو ایک ندامت کہ آنسو کہ گرنے سے سب گناہ معاف ہو جائیں گئے کیونکہ اللہ وہ ذات ہے جو 70 ماؤں سے بھی بڑھ کر محبت و شفقت کرنیوالی ذات ہے اور یہ ممکن نہیں کہ اسکے بندے اسے پکاریں اور وہ اپنے بندوں کی التجاء و دعا نا سنے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں