دریائے سواں کی موت ایک زندہ دریا کا خاموش المیہ

کبھی دریائے سواں کی رواں دواں لہریں زندگی کی پُرشکوہ علامت تھیں۔ اس کا صاف و شفاف پانی اتنا پاکیزہ تھا کہ لوگ بے دھڑک اسے پی لیتے تھے۔

کناروں پر کھڑے ہو کر جب پانی میں جھانکتے تو نیچے رنگ برنگی مچھلیوں کے غول نظر آتے، جو پانی کی سطح پر اس طرح رقص کرتے تھے جیسے فطرت کی خاموش موسیقی انھیں سحر زدہ کر رہی ہو۔

یہ دریا نہ صرف مقامی حیات کے لیے ایک جنت تھا، بلکہ سردیوں کے موسم میں سائبیریا اور مشرقی یورپ سے ہزاروں مہمان پرندے—مرغابیاں، ہنس، کونجیں —یہاں پناہ لیتے تھے۔ یہ ان کے طویل سفر کا ایک اہم پڑاؤ تھا، جہاں وہ تازہ پانی سے اپنی توانائی بحال کرکے برصغیر اور سری لنکا کی جانب اپنی ہجرت کا سفر جاری رکھتے تھے۔

مگر آج یہ سب کچھ ماضی کا ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ دریائے سواں اپنی رعنائی اور حیات بخش روح کھو چکا ہے۔ جو کچھ باقی بچا ہے، وہ صرف ایک آلودہ، بدبودار اور زہریلا سیال ہے۔

شہری توسیع، بے ہنگم صنعتی فضلے، نکاسی آب کے زہریلے اخراجات، اور انسان کی بے حسی نے مل کر اس دریا کی سانسوں کو گھونٹ دیا ہے۔ اب اس کی سطح پر مچھلیوں کے چمکتے ہوئے جسم نہیں، بلکہ گندگی، پلاسٹک کے کچرے، اور کیمیائی جھاگ کے غبار تیرتے ہیں۔ وہ مہمان پرندے، جو کبھی یہاں آسمان سے اترتے تھے، اب اس کے زہریلے بخارات سے دور بھاگتے ہیں اور کسی محفوظ مقام کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔

یہ آلودگی صرف دریا کی سطح تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس نے زیرِ زمین پانی کے ذخائر کو بھی زہریلا بنا دیا ہے۔ جو پانی کبھی زندگی بخشتا تھا، آج وہی جلد کی بیماریوں، الرجی، اور دیگر مہلک امراض کا سبب بن رہا ہے۔ دریا کے کنارے بسنے والے لوگ، جو کبھی اس کے پانی پر فخر کرتے تھے، اب اس کی بدبو سے بھی کراہت محسوس کرتے ہیں۔

حکومتی بے حسی اور ناقص منصوبہ بندیالمیہ یہ ہے کہ حکومت کے پاس نئے پلوں، سڑکوں اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے لیے تو وافر وسائل موجود ہیں،

لیکن دریائے سواں کی صفائی اور بحالی کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں۔ آلودگی کو کم کرنے کے لیے کسی ٹریٹمنٹ پلانٹ کی تعمیر کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ حکومت ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو اس قانون کا پابند بنانے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں رکھتی کہ وہ اپنا سیوریج کا پانی دریا میں نہ ڈالیں۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ نئی ہاؤسنگ سوسائٹیاں تعمیر ہو رہی ہیں، مگر ان کے نکاسی آب کا کوئی موثر انتظام نہیں، اور سارا گندہ پانی بلا روک ٹوک دریائے سواں میں بہایا جا رہا ہے۔ دریا کی آلودگی کم کرنے کے بجائے اسے ایک گندے نالے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

ایک اجتماعی جرم دریائے سواں کی موت کوئی اچانک واقعہ نہیں، بلکہ یہ ایک طویل، دردناک اور بے حسی سے بھرا ہوا قتل ہے، جس کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ اس دریا کو بچایا جا سکتا تھا، اگر وقت پر ہوش کے ناخن لیے جاتے، اگر حکومت اور عوام مل کر اس کی حفاظت کے لیے اقدامات کرتے، اگر ترقی کے نام پر فطرت کی تباہی کو روکا جاتا۔ مگر اب شاید بہت دیر ہو چکی ہے۔ دریائے سواں، جو کبھی زندگی سے لبریز تھا، اب صرف تاریخ کی کتابوں میں ایک یادگار کے طور پر زندہ رہے گا—ایک ایسا دریا، جو تھا مگر اب نہیں ہے۔

یہ المیہ صرف ایک دریا کی موت نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی بے حسی اور فطرت کے ساتھ ہمارے بے رحم رویے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اگر ہم نے اب بھی آنکھیں نہ کھولیں، تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں