165

خوشحال زندگی

ہشاش بشاش چہرہ ،گفتگو میں نفاست ،منافقت سے پاک دوستی اور خوش لباسی کی وجہ سے خان شبیر خان صاحب میری پسندیدہ شخصیت بنے ہوئے ہیں۔ وہ گائے بگاہے ہی دفتر تشریف لاتے ہیں لیکن جب بھی آئے دو تین دوست ان کے ہمراہ ہوتے ہیں تعارف بھی ایسے تعریفی کلمات سے کرواتے کہ ان کا چہرہ بھی خوشی سے کھل اٹھتا ہے۔

ملازمت کے ساتھ ساتھ کاروبار میں دلچسپی اور سوجھ بوجھ رکھنے کی بناء پر پراپرٹی کے بزنس کو فوقیت دیتے ہیں عوامی رکھ رکھاؤ‘ خوشی وغمی کے مواقع پر بھرپور شرکت کی خوبی نے بھی ان کی شخصیت کو نمایاں کیا ہوا ہے طویل رفاقت کے باوجود ان کی ذاتی زندگی کے بارے جاننے کی کبھی کوشش کی اور نہ ہی موقع مل سکا۔اتفاق سے چند دن قبل وہ خلاف معمول اکیلے ہی دفتر تشریف لائے۔

گپ شپ شروع ہوئی تو میں نے ان کی کامیاب زندگی ہر لمحہ چہرہ پر مسکراہٹ اور ہشاش بشاش رہنے اور پر اثر شخصیت بننے کا گر جاننے کی کوشش کی تو خان صاحب خوشی سے قہقہہ لگاتے ہوئے گویا ہوئے کہ اس میں میرا کوئی کمال نہیں ہے اور نہ میری زندگی میں بناوٹی پن ہے۔

لیکن یہ والدین کی دعاؤں اور عوام کی بے لوث خدمت کا صلہ ہے زندگی کے ایک واقعہ نے میری زندگی کو بدل دیا یہ سنتے ہی میرے اندر ایک عجیب تجسس پیدا ہوا لیکن وہ خاموش ہوگئے میں نے بات آگے بڑھانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے مسلسل چپ سادھ رکھی شائد کسی سوچ میں ڈوب گئے

میں ان کے چہرہ کو ہی دیکھتا رہا تھوڑی دیر بعد کہنے لگے کہ والدین کی تربیت ہی ایسی ہے کہ میں عزیز رشتے داروں اور دوستوں سے بھرپور رابطہ رکھتا ہوں اگر روٹین میں ملاقات نہ ہوتو ان کے گھروں یا دفتر میں حاضر ہوجاتا ہوں

چند سال قبل دسمبر کی یخ بستہ سردی میں سورج ڈھلتے ساتھ ہی والد محترم کی قریبی عزیزہ کے گھر ملاقات کے لیے گیا تووہاں ایک عجیب ہی منظر میں میرے سامنے تھا میاں بیوی جوان اولاداور چھوٹے بچے یعنی پورا خاندان شام کا کھانا کھانے کے بعد صحن کے کنارے بنے چولہے کے اردگرد بیٹھے آگ تاپ رہے ہیں گاؤں میں بجلی کی سہولت ہونے کے باوجود ان کے گھر کے ایک کمرے میں لاٹین کی روشنی نظر آرہی ہے آگ کے انگاروں سے بھری انگیٹھی میرے پاس بھی رکھ دی میں بھی ان کے ساتھ کھلے آسمان تلے بیٹھ کر آگ تاپنے لگا۔

باتوں ہی باتوں کے دوران میں نے بجلی بندش کے بارے میں پوچھ لیا عزیزہ کے خاوند نے بات کو ٹالتے ہوئے کہا کہ صبح سے اچانک بند ہوگئی ہے خود بحال کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ مل سکی صبح بازار سے الیکٹریشن بلوا کر ٹھیک کروالیں گے۔

ان کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے میں نے خاموشی اختیارکرلی چونکہ دو ہفتوں کے بعد ان کی بیٹی کی رخصتی کی تاریخ بھی طے تھی اس بابت بات چیت کرنے کے بعد نکلنے لگا تو میری عزیزہ باہر حویلی کے گیٹ تک الوداع کرنے ساتھ آئیں اور پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھائی سچ بات تویہ ہے کہ ہم نے بچی کے جہیز کی جانب توجہ دئیے رکھی تاکہ بچی کو خالی ہاتھ کی بجائے کچھ نہ کچھ اور ضروری سامان کے ساتھ ہی رخصت کریں جبکہ گھریلو حالات آپ کے سامنے ہیں۔

آپ کے بھائی جو کماتے ہیں بمشکل دال روٹی پوری ہورہی ہے گزشتہ تین ماہ سے بل ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے چار دن قبل واپڈا والوں نے کنکشن منقطع کردیا اس لیے تاریکی میں بیٹھے ہیں

اب جوں جوں شادی کی تاریخ قریب آرہی ہے ہماری پریشانیوں میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے کس سے فریاد کروں؟ ان کی بات سنی فوری کوئی جواب نہ دے پایا۔ گھر واپسی پر سوچ و بچار کرنے لگا کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کروں؟

پھر اچانک خیال آیا اللہ نے ہمت و توفیق دی جس پر میں نے فیصلہ کیا کہ پراپرٹی کے کاروبار کے پہلے سودے کا جتنا بھی منافع ہوا تمام ان کے حوالے کردیا جائے۔ صبح ہوئی میں دوبارہ ان کے گھر پہنچ گیا بل لیا خود جمع کروایا ساتھ بجلی یونٹ زیادہ کی استعمال کی وجہ بھی چانچنے کی کوشش تو سمجھ آئی کہ ان کے گھر میں انرجی سیور بلب کی بجائے عام اور مارکیٹ میں ارزاں نرخوں میں ملنے والے پرانی طرز کے سو وا ٹ کے بلب نصب ہیں جس کی بناء پر بل زیادہ آرہا ہے۔

میں نے بل ادائیگی کی اور ساتھ ان کے گھر میں انرجی سیور لگوا کر پرانے بلبوں کو گھر لے آیا تاکہ نئے ایکسپائر ہونے پروہ دوبارہ پرانے استعمال کر نہ سکیں بیٹی کے جہیز کا ضروری اور دیگر معاملات کا بھی بندوبست کروادیا۔

اگلے روز بجلی بحالی اور گھر میں سفید روشنیاں پھیلیں تو دل کو ایسا روحانی سکون ملا جو اس سے پہلے کبھی نہ نصیب نہ ہوا تھا۔

شاید ان کی دعاؤں ہی کا اثر ہے میرے حالات روز بروز بہتر ہونے لگے میرے کاروبار میں تقویت آئی گھر میں خوشحالی اور خاندان میں اتفاق و اتحاد کی فضا پیدا ہونے سے میں آسودہ حال ہوگیا اور ابھی تک بات بنی ہوئی ہے۔ غریب اور لاچار کی مدد کرنا زندگی کا نصیب العین بن گیا

خان صاحب نے بتایا کہ میرے دوستوں کی فہرست میں ایک جہیز سنٹر کے مالک ہیں علاقہ کی غریب و مساکین والدین کی بیٹیوں کے لیے ضروری جہیز ان سے لیتا ہوں اور پھر اقساط پر ادائیگی کرتا رہتا ہوں چاہے کتنی ہی زیادہ رقم بن جائے تاجر دوست کبھی بھی انکاری نہیں ہوا

۔

ابھی آپ کو پرسوں کی ہی بات بتاتا ہوں کہ بس سٹاپ سے گزررہا تھا کہ گاوں و محلہ کی خاتون اپنے سولہ سالہ بیٹے کے ہمراہ سخت گرمی میں سٹاپ پرکھڑی نظر آئی تو رک گیا کہ شاید انہیں بھی گھر واپسی کے لیے ٹرانسپورٹ کی ضرورت ہے جان و پہچان ہونے کی وجہ سے ہماری پیشکش پر گاڑی میں سوار ہوگئے

ان سے حال واحوال اور شہر آنے بارے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا اس باربجلی کا بل پندرہ ہزار آگیا ہے بچی کا گیارہویں جماعت میں داخلہ کروانا تھا اس لیے جو جمع پونجی گھر میں تھی اس کے داخلہ کے لیے رکھ لی محلہ میں کسی نے بتایا کہ واپڈا دفتر میں بل قسطوں میں ادائیگی کی سہولت موجود ہے اس لیے بچوں کے باپ کو کام سے چھٹی کروانے کی بجائے میں خود واپڈا آفس گئی گاؤں سے دفتر پھر ایک سے دوسرے دفتر میں آنے جانے کی وجہ سے پانچ سو روپے سے زائد خرچ ہوگئے لیکن شکر ہے کہ قسطیں ہوگئیں ہیں اب انشااللہ آہستہ آہستہ ادا ہوجائیں گی اور بچی کے داخلہ میں بھی کوئی مشکل پیش نہ آئے گی۔

اللہ نے پھر میری مدد کی مجھے ہمت و توفیق دی کہ خاتون کو بولا محترمہ آپ بجلی کا بل پورا کروادیں بچی کے کالج داخلہ فیس کتب اور یونیفارم کا اپنا ذمہ لے لیا یہ میری کامیاب زندگی کا گر ہے میں لوگوں کی خوشی کو اپنی خوشی تصور کرتے ہوئے بھر پور مناتا اور غمی میں ان کے ساتھ برابر شریک ہوتا ہوں

اللہ تعالی نے منافقت سے پاک دوستوں سے نوازا ہوا ہے جو ہر وقت میں دست وبازو بنے رہتے ہیں یہی میری کامیاب اور خوشحال زندگی کا راز ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں