
ہر مسلمان ہی نبی پاک سے انتہائی محبت و عقیدت کا دعویدار ہوتا ہے۔ ہم سب سمجھتے ہیں کہ حب رسول کے بغیر ایمان کی تکمیل ممکن ہی نہیں لیکن وہ مسلمان زیادہ خوش بخت ہیں جنہیں اس محبت اور عقیدت کے اظہار کے اچھے مواقع بھی میسر آتے ہیں اور ان لوگوں میں سے سب سے خاص لوگ وہ شعرا و شاعرات ہیں جنھیں اللہ تعالی نے انتہائی خوبی اور خوبصورتی کے ساتھ اپنے محبوب کی صورت اور سیرت کی خوبیاں ایک فنی التزام کے ساتھ بیان کرنے کا ملکہ عطا کر دیا ہے نئی نسل کی عمدہ شاعرہ شمسہ نورین انہی خوش بختوں میں شامل ہے۔
اسے شعر کہتے ہوئے بہت طویل عرصہ نہیں ہوا اور”آبجوئے نور“ اس کا پہلا اردو شعری مجموعہ ہے جو کہ نعتیہ کلام پر مشتمل ہے۔ عمومی روش سے ہٹ کر شمسہ نے پہلے غزلیں شائع نہیں کروائیں یوں نعت کو اپنی پہلی محبت اور شناخت بنایا ہے۔اپنا یہ تعارف اس نے منظوم طور پر کچھ یوں پیش کیا ہے جو پوچھتے ہو کون ہوں، حسب نسب ہے کیا مرا کنیز فاطمہ ہوں میں، گدا در رسول کی یہاں سے بارگاہ رسالت میں اس کی عقیدت اور محبت کا بخوبی اندازہ ہوتاہے جو کہ”آبجوئے نور“ پڑھ کر اور بڑھ جاتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ نعت گوئی صرف منتخب اور پسندیدہ بندوں کا اعزاز ہے اور اس کی شرط حب رسول ہے۔ یہ سعادت ان خوش نصیبوں کے حصے میں آتی ہے جن کے دل حضور اکرم ﷺ کی محبت سے جگمگا رہے ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ شمسہ نورین با سعادت خاتون ہے کہ اسے اس اہم کام کے لئے منتخب کیا گیا ہے اور اس کام کا پہلا مرحلہ یعنی ”آبجوئے نور“ کی اشاعت دیکھتے دیکھتے طے ہو گیا۔ شمسہ کا دل اس کام میں یوں لگا کہ لگا ہی رہ گیا۔
بقول شمسہسید الانبیاء، آپؐ کا جو ہُوا، بس ہُوا آپؐ کاشمسہ نورین کے ہاں الفاظ کا انتخاب محتاط ہے کیونکہ نعت میں اس کی ترجیح ابلاغ ہے۔ اس کے لئے وہ بھاری بھر کم تراکیب اور تقسیم الفاظ سے دامن بچاتی رہی ہے۔ اسی لئے اس کا اسلوب سہل ممتنع کے قریب تر ہے جس میں بظاہر سادہ الفاظ متبرک نعتیہ مضامین کو بیان کر نے کے لئے استعال ہوئے مگر جذبے کی برکت نے انہیں قاری کے لئے پرکشش بنادیا ہے
جس نے اس شہر محبت کی رسائی پائی
اس نے ہر درد سے دنیا کے رہائی پائی
کچھ لوگ چنیدہ ہیں رہ عشق محمد
کچھ خاص ہیں دل جن پہ عیاں نعت نبی ہے
نعتیہ شاعری نت نئے مضامین سے زیادہ جذبے کی صداقت اور شدت کے سبب دل و دماغ پر روحانی سرور طاری کرتی ہے اور اور شمسہ کا کلام بھی ایک گونہ یہی احساس دلاتا ہے تاہم شمسہ کے ہاں حضور سے مؤدبانہ تخاطب اور استغاثہ بھی نعت کا ایک اہم جزو ہے
ہم آپؐ سے رحمت کے طلبگار ہمیشہ
ہو چشمِ کرم آپؐ کی سرکار ہمیشہ
جہاں براہ راست تخاطب نہیں وہاں دعائیہ انداز میں یہی باتیں کی گئی ہیں
اُس نام کی برکت سے لگے پار یہ کشتی
ہاتھوں میں رہے اپنے یہ پتوار ہمیشہ
شمسہ نورین کی شاعری محض موزوں گوئی نہیں بلکہ دین سے اس کی رغبت کی مظہر بھی ہے۔ کہیں کہیں یہ دینی علم تقدیسی اشارات کی صورت میں دکھائی دیتا ہے جیسے تلمیحات وغیرہ اور کہیں عقائد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے
خدا نے ان کی ذاتِ میں سبھی کمال رکھ دئیے
رؤف ہیں،رحیم ہیں،وہ صاحب جمال ہیں
نبی کی شان ہے ختمِ نبوت
مرا ایمان ہے ختمِ نبوت
سوچا جائے تو نعت کا بنیادی مقصد حضور پاک ﷺ سے عقیدت کے اظہار کے علاؤہ گہرے مطالعے کے بعد سیرتِ سرور عالم کا فروغ ہی ہے جو کہ شمسہ کی نعوت میں بھی جا بجا جھلکتا ہے۔
سیدھے رستے کا مفہوم اتنا سا ہے
دیکھتے جائیے بس انہی کی طرف
روشن ہے زمانہ تریکردار
بٹتی ہے ضیاء کوچہ انوار کی کو سے
اس کتاب سے با قاعدہ اور مکمل انتخاب تو بوجوہ نہیں کیا جا سکا تاہم سامنے آتے گئے اشعار میں سے چند اور پیش ہیں
وہ زمانہ بھی کیا، زمانہ تھا
آپ کا اس جہاں میں آنا تھا
اے ہوا دیکھ یہ ہے درِ مصطفی
پاؤں آہستہ دھر، سر جھکا کے گزر
نعت کی ذیل میں جو لفظ آئیں
سمجھو خیرِ کثیر ہوتے ہیں
زبان و قومیت سے کر کے بالا
ہمیں کلمے پہ یکجا کر دیا ہے
بلاشبہ ”آبجوئے نور” کے ذریعے شمسہ نورین نے نعتیہ شاعری کی روایت کو تسلسل سے ہم کنار کیا ہے۔ اللہ کرے کہ اس کی دنیا و عاقبت اسں مجموعہ کلام کی برکت سے منور رہے۔ آمین