ملکی سیاست میں ان دنوں بلدیاتی انتخابات کا شوشہ پوری آب تاب کیساتھ چمکنے کی کوشش کررہا ہے چند دن قبل بلدیاتی انتخابات کے ہلکے دھماکے نے مقامی سیاسی کھڑپینچوں کو اسسرد موسم میں بھی کلف والے کپڑے پہننے پر مجبور کردیا ہے
دعوت ولیمہ اورفوتگی کے لیے ہر امیر غریب کے گھروں کی طرف جانیوالے روڈ تقریبا آباد ہوچکے ہیں تو دوسری طرف ترقیاتی کاموں کا ایک بڑا سلسلہ دھڑلے سے جاری وساری ہے
اور عرصہ دراز سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار گلیاں اور روڈز نئے سرے سے بننے کے لیے زور شور سے کام جاری ساری ہے آئے روز رنگ برنگے افتتاح سمیت سوشل میڈیا پر
ایک ایسا طوفان جاری ہے لگتا ہے کہ ہم سب
چاند پر پہنچنے والے ہیں اگر وطن عزیز میں بلدیاتی نظام پر نظر ڈالیں توبلدیاتی نظام کاسب سے کامیاب دور صدرمشرف کا تھا جس نے 2001 ء اور 2005ء میں یہ نظام مضبوط بنیادوں پر نہ صرف استوار کیا
بلکہ ناظمین کو مفاد عامہ اور انتظامی امور کے میدان میں لامحدود اِختیارات سونپے گئے۔ بلدیاتی نظام میں نمائندوں کا اپنے علاقہ سے منتخب ہونے کی وجہ سے وہ نہ صرف چوبیس گھنٹے عوام کی خدمت پر مامورتھے
اس نظام کی ایک اور اہم خوبی خواتین کی انتخابات میں شمولیت تھی جس سے اہلِ علاقہ سے ہونے کی بناء پر وہ ان خواتین اْمیدواروں کا چناؤ کر سکتی ہیں جن پر وہ نہ صرف بھروسہ کرتی ہیں بلکہ اْنہیں یقین ہوتا ہے
کہ وہ ان کے مسائل کو اْجاگر کرنے اور حل کرنے کی بھر پور سعی کریں گی یہ عوام کو ریلیف دینے کا فوری اور مضبوط ذریعہ ہے وطن عزیز کے عام انتخابات میں 47/45فارم کی بازگشت کم نہ ہوئی تھی
کہ ن لیگ کی تقریبا لولی لنگڑی حکومت نے ایک بارپھر بلدیاتی انتخابات منعقد کروانے کا ایک شوشہ چھوڑ دیا جسے عرف عام میں ہوا چیک کرنا بھی کہا جاسکتا ہے
تاہم اسکا باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا کوئی بھی حکومت معرض وجودمیں آنے سے پہلے ان کے منشور میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ بلدیات کو مضبوط بنایا جائیگا اورعوام کو ریلیف دینے کے لیے بلدیاتی نظام کو مضبوط کیا جائیگا اللہ کرے
کہ اس ملک میں بلدیاتی نظام اصل شکل میں رائج ہوجائے تونہ صرف عوام کوحقیقی نمائندگی حاصل ہوسکے گی وطن عزیز میں اس وقت سیاست تقریبا انارکی کا شکار ہوچکی ہیں
ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں جو باری باری حکومت کے لیے باری باری کی سیاست کرتی رہی ہیں اس وقت تقریبا ایک دوسرے سے سیاسی حوالہ سے دست گریباں نظر آتی ہیں
اور انکی حالت اس ترازو کی سی ہے جس میں مینڈک تولنے کی کوشش کی جائے تو یہ کام ممکن ہوتا نظر نہیں آتالیکن بھلا ہو اسٹیبلشمنٹ کا جس کے ترازو نے یہ مینڈک بھی تول ڈالے ہیں
اس اس ترازو سے تحریک انصاف کا مینڈک باہر ہے جو شائید تلنا چاہتا ہے لیکن اسے تولا نہیں جارہا ن لیگ کے گزشتہ دور میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حکمران جماعت کی
واضع کامیابی کے باوجودبھی تقریبا تین سال تک ضلع راولپنڈی کے ضلعی چیئرمین کا انتخاب نہ کیا جا سکا جس کا سہرا ن لیگ کے اس وقت کے چہیتے چوہدری نثار علی خان کے سر جاتا ہے
کیونکہ منتخب نمائندوں کی موجودگی میں ان کے ترقیاتی فنڈز کو ہڑپ کرنا کسی صورت بھی ممکن نہ تھا لیکن جب منتخب نمائندے خود ہی مخلص نہ ہوں تو عوام کی حالت کیسے بدل سکتی ہے
کیا اب گلی محلوں میں شروع ہونے والے ترقیاتی کام ان بلدیاتی انتخابات کا پیش خیمہ تو نہیں خیر جو بھی اللہ کرے عوام کا بھلا ہو لیکن گیس اور روات ہسپتال جیسے بڑے منصوبے حلقہ میں پایہ تکمیل تک پہنچانے کے نام پر ان سیاستدانوں کو پتہ نہیں سانپ کیوں سونگھ جاتا ہے
تو دوسری طرف ترقیاتی کاموں میں من مرضی کا زمہ دار کون چندروز قبل حلقہ پی پی 9کی یوسی بگا شیخان کے گاوں لوسر میں ایک عجیب نظارہ دیکھنے ملا جب گاوں کے لوگوں نے ٹھیکدار کے بندوں کو چند انچ کنگریٹ روڈ پر ڈالنے سے روکا تووہ گلے پڑ گے راقم موقع پر گیا
تو موقع پر نہ ٹھیکدار نہ انجیئنر اور نہ کوئی ڈیپارٹمنٹ سے متعلقہ شخص ورک آڈر کے بغیر کام جاری جبکہ ٹھیکدار کا ایک بھائی کام کی نگرانی کررہا ہے
کروڑوں روپے کے ٹھیکے لیکر ورک آڈر کے بغیر من مرضی کا کام کروانے والے ٹھیکدار کے ہاتھ سیاسی طور پر شائید بہت اوپر ہیں
اس لیے تو وہ عوام کے گلے پڑ رہے ہیں شوکت بھٹی کے PAنے کال کرکے کہا کہ یہ کام انکا نہیں ہے چیک کیا تو الیکشن میں شکست کھانے والے جاوید اخلاص اس کے کرتا دھرتا تھے
ٹھیکدار اپنا کام دکھا کر یہ جاء وہ جاء ہوچکا لیکن کیا اس غیر معیاری کام کو چیک کیا جائیگا کیا ایسی کمپنی سرکاری ٹینڈر کی اہل ہے جسکا ٹھیکدار کام کروانے کے بجائے سیرسپاٹے پر نکلا ہوایسے ٹھیکدار ہی منتخب نمائندوں کے فرنٹ مین ہوتے ہیں
جب ٹھیکہ ہی رشوت دیکر حاصل کیا جائیگا تو اس میں شفافیت کہاں سے ہوگی اور کام خیر سے کیسے ہوگا ن لیگ کو ایک بار پھر اقتدارملا ہے اس کی قیادت کو چاہیے
کہ اپنی سابقہ غلطیوں کو درست کرتے ہوئے اپنے درست سیاسی سفرکا آغاز کرے اگر انکا یہی وطیرہ رہا اور ٹھیکے من پسند افراد کو دیکر اسی عوام کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالے جاتے رہے
توآنے والے بلدیاتی الیکشن میں انہیں وہی کامیابی نصیب ہوگی جو عام الیکشن میں ملی تھی لیکن بلدیات میں شائید 45/47فارم ممکن نہ ہوتو فارم 50بھی ایجاد کیا جاسکتا ہے یہاں سب ہوسکتا ہے ماسوائے درست کا کرنیکے اللہ وطن عزیز کو سلامت رکھے