طارق بٹ
گوجرانوالہ کے انڈسٹری ایریا کے ایک فٹ پاتھ پر کھڑے پوٹھوہاری دوست نے گوجرانوالہ کے رہائشی بٹ دوست سے پوچھا یار یہ گوجرانوالہ میں اتنے بٹ کہاں سے آ گئے دوست نے سامنے ایک فیکٹری کے ماتھے پر آویزاں بورڈ پر توجہ دلائی جس پر تحریر تھا ” بٹ مینوفیکچرنگ فیکٹری ” پوچھنے والا دوست بورڈ پڑھ کر بولا شکر ہے آج مجھے بھی پتا چل گیا کہ بٹ کہاں بنتے ہیں قصہ کچھ یوں ہے کہ فیکٹری پر آویزاں بورڈ پر بٹ کے بعد گیزر مینوفیکچرنگ فیکٹری تحریر تھا مگر وقت گزرنے کے باعث گیزر مٹ چکا تھا اور اب صرف بٹ مینوفیکچرنگ فیکٹری پڑھا جاتا تھا جس کے سبب یہ لطیفہ بن گیا اور زبان زد عام ہو گیا –
مذکورہ لطیفہ اس وقت مجھے گدگدانے لگتا ہے جب میں بروز ہفتہ رفاہ ریڈیو راولپنڈی سے براستہ روات کلر سیداں روڈ پر چھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے پنڈی پوسٹ کے دفتر پہنچتا ہوں دفتر کے دونوں اطراف سریئے اور سیمنٹ کے انبار اور دفتر کے عین سامنے درخت کے نیچے کھڑے چار پانچ موٹر سائیکل اور دفتر میں داخل ہوتے نکلتے تروتازہ ہشاش بشاش نوجوان اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ اس دفتر میں سریئے اور سیمنٹ کی مدد سے انتہائی پکے سچے اور کھرے صحافی تیار کیئے جاتے ہیں اس اعتبار سے ہم پنڈی پوسٹ کو جرنلسٹ مینو فیکچرنگ فیکٹری بھی کہہ سکتے ہیں جہاں تیار ہونے والے صحافی علاقے بھر میں شبانہ روز خدمات سر انجام دے رہے ہیں-
دفتر میں داخل ہوتے ہی آپ کا پہلا واسطہ راجہ شیراز سے پڑے گا جنہیں آپ استقبالیہ آفیسر ، اکاونٹنٹ یا ایڈمنسٹریٹر میں سے کسی بھی عہدے پر متمکن سمجھ سکتے ہیں کہ یہ تمام معاملات وہی دیکھتے ہیں ابھی آپ ان کی استقبالیہ مسکراہٹ سے محظوظ ہو ہی رہے ہوں گے کہ ان کے سامنے بیٹھی چشمہ لگائے چھوٹی چھوٹی داڑھی والی ایک شخصیت اٹھے گی اور آپ سے بغل گیر ہو جائے گی موصوف اسی فیکٹری سے تیار شدہ صحافی شہزاد رضا ہیں جو آج کل مارکیٹنگ منیجر کے فرائض بھی سر انجام دیتے ہیں ان دونوں شخصیات سے ملنے کے بعد آپ کا واسطہ اسی فرنٹ آفس میں محترم احسان سے ضرور پڑے گا جنہیں آپ انچارج مطبخ بھی کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے لئے چائے پانی کا بندوبست انہی کی ذمہ داری ہے –
فرنٹ آفس سے ایک سرکنے والے دروازے کو سرکا کر اندر داخل ہوں گے تو آپ کو یوں محسوس ہو گا جیسے آپ کسی ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گئے ہیں کہ آپ کی آنکھوں کے سامنے ایک مسلسل دھواں چھوڑتا انجن موجود ہو گا اچانک اس انجن کا ہاتھ آپ کی طرف لپکے گا اور انتہائی محبت سے آپ کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں دبوچ لے گا تب آپ کو معلوم پڑے گا کہ جسے آپ ریلوے انجن سمجھ رہے تھے وہ تو آنکھوں پہ چشمہ سجائے ہونٹوں میں سگریٹ دبائے ایک جیتا جاگتا انسان ہے یہ مشفق شخصیت جرنلسٹ مینو فیکچرنگ فیکٹری کے انتہائی ماہر کاریگر زاہد حسین ہیں جو پنڈی پوسٹ کی ابتداء ہی سے بحثیت سب ایڈیٹر ادارے کے ساتھ منسلک ہیں اور زیادہ تر جرنلسٹ تیار کرنے میں ان کا بہت اہم کردار ہے کہ محترم کچھ عرصہ پہلے ہی موقر روزنامے نوائے وقت سے ایک طویل رفاقت کے بعد ریٹائرڈ ہوئے ہیں پنڈی پوسٹ کی جازبیت انہی کی مرہون منت ہے –
زاہد صاحب کی سامنے والے نشست پر پتلون اور شرٹ میں لپٹی سمارٹ سی ڈانگ نما شخصیت اگر متحرک ہو تو یقین کر لیں کہ روشن آنکھوں والی یہ شخصیت سب ایڈیٹر محمد ابراہیم کی ہو گی جو خود بھی اسی فیکٹری میں تیاری کے مراحل سے گزری مگر اب مجھ ایسے نالائقوں کی استاد ہے کہ یونی کوڈ سے ان پیج میں کنورژن ناچیز نے انہی سے سیکھی آج کل عمرہ کی سعادت حاصل کرنے گئے ہوئے ہیں اللہ پاک قبول فرمائیں آمین-
دفتر میں اگر شور ہے اور ماضی کی مشہور انگریزی سریز کے ہیرو کوجیک کے بالوں سے آزاد روشن چمکتے ہوئے سر کی طرح کا سر رکھنے والا کوئی ہیرو اونچی آواز میں گفتگو کر رہا ہے تو بلا جھجک جپھی ڈال لیں موصوف اس فیکٹری کے تیار کردہ نامور صحافی آصف شاہ ہوں گے جو ترقی کرتے کرتے اب چیف رپورٹر ہو گئے ہیں ان کے ہاتھ میں قلم ہو تو اس سے تلوار کا کام لیتے ہیں مگر ہاتھ میں چمچہ ہو تو پیار سے، کہ محترم منجھے ہوئے شیف بھی ہیں اور انتہائی لذیذ پکوان بھی تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں-
پنڈی پوسٹ کے ایک ایڈیٹر بھی ہوا کرتے ہیں جو کہنے کو تو میرے دوست شہباز رشید ہیں مگر سال میں ایک آدھ بار ان سے ملاقات کا اعزاز حاصل ہو سکتا ہے اس لئے کہ باقی کے گیارہ ماہ ایڈیٹر خود دفتر سے ایڈٹ ہوئے رہتے ہیں –
اسی دفتر میں درویش کی ملاقات نتھو لال جیسی مونچھوں والے بھائی سردار بشارت سے بھی ہوتی رہتی ہے جو ہمیشہ انتہائی تپاک سے ملتے ہیں اگر کبھی عبدالجبار چودھری صاحب سے ملاقات کا اعزاز حاصل ہو جائے تو اس صاحب علم شخصیت سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے خصوصا خطہ پوٹھوہار کے رسوم و رواج کے حوالے سے بہت کچھ نیا مل جاتا ہے از حد منکسر المزاج بھائی محمد اشفاق کا پر رونق چہرہ اگر مہینے میں ایک بار دیکھنے کو مل جائے تو پورا مہینہ بہت ہی اچھا گزرتا ہے کہ دھیمے لہجے میں بات کرنے والی یہ شخصیت پھر پورا مہینہ آنکھوں کے سامنے پھرتی رہتی ہے-
پنڈی پوسٹ کے روح رواں چیف ایڈیٹر محترم عبدالخطیب چودھری کے ساتھ پہلے تو اکثر ملاقات ہو جایا کرتی تھی مگر جب سے روات کلر سیداں روڈ پر جنگلی جھاڑیوں کی طرح شادی
ہال اگنے شروع ہوئے ہیں کم کم ہی ملاقات ہوتی ہے کہ ہفتہ اور اتوار براتوں اور ولیموں کے دن ٹھہرے اور چودھری صاحب بارات یا ولیمہ میں ضرور مدعو ہوتے ہیں اس لئے اگر شرف ملاقات ہو جائے تو غنیمت – محترم نے بہت سارے قومی اخبارات میں تجربہ حاصل کرنے کےبعد اپنا اخبار شروع کیا جو آج سات سال کا ہو گیا ہے اور شائید واحد علاقائی اخبار ہے جو تواتر کے ساتھ جاری ہے عبدالخطیب چودھری نے جو علم حاصل کیا اسے تقسیم کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا یہی وجہ ہے کہ اب علاقے میں صحافیوں کی ایک ایسی کھیپ تیار ہو چکی ہے جو نہ صرف پنڈی پوسٹ بلکہ دیگر قومی اور علاقائی اخبارات میں علاقائی اور ملکی مسائل کو اجاگر کر رہے ہیں جس کے لئے چودھری صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں بہت سارے دوستوں کا ذکرنہ کر سکا کہ جگہ کی قلت کا سامنا ہے ورنہ تحریریں یہ ناچیز سب کی پڑھتا رہتا ہے کہ جرنلسٹ مینو فیکچرنگ فیکٹری پنڈی پوسٹ کے تیار کردہ ایک ایک کارکن سے محبت کا رشتہ ہے دعا ہے کہ رب کائنات سب کی صلاحیتوں میں اضافہ {jcomments on}فرمائیں آمین…!
215