جب فیصلے عدالتوں سے نکل کر پولیس کے ہاتھوں ہونے لگیں، تو انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔


انجنیئر افتخار چودھری

عدالتوں کی شان و شوکت، ان کے در و دیوار، سنگِ مرمر کے ستون اور بڑی بڑی عمارتیں اگر انصاف دینے سے خالی ہوں تو ان کا وجود سوال بن جاتا ہے۔ آج اسلام آباد ہائیکورٹ کی عمارت بھی ویران دکھائی دی — نہ وکلاء کی رونق، نہ عوام کا اعتماد، نہ عدل کا سایہ۔ یہ سب کچھ کسی حادثے کا نہیں، بلکہ اُس 26ویں ترمیم کا شاخسانہ ہے جس نے انصاف کے نظام کو کمزور اور عوام کے اعتماد کو مجروح کیا۔
آج عدالتوں کے دروازے بند نہیں، مگر فیصلے رکے ہوئے ہیں۔ قیدی نمبر 804 کی فائل اب بھی کسی میز پر پڑی ہے، اور ملک کے سب سے بڑے سیاسی قیدی کا مقدمہ روز و شب کی گردش میں گم ہے۔ قوم سوال کر رہی ہے کہ کیا انصاف کے ایوان صرف کمزوروں کے لیے کھلے ہیں؟ طاقتور جب چاہے مقدمہ دبا دے، اور کمزور جب چیخے تو اس کی آواز فائلوں میں دفن ہو جائے؟


اسی دوران ایک پیغام نے دل کو جھنجھوڑ دیا۔ نورین خان نیازی — جو خان صاحب کی ہمشیرہ اور حسان نیازی کی والدہ ہیں — نے وہ دردناک بات کہی جو کسی ماں کے دل سے نکلتی ہے۔ ان کی زبان سے نکلا ہر لفظ ایک زخم بن کر چبھتا ہے۔ میں انہیں برسوں سے جانتا ہوں۔ ان کے شوہر حفیظ اللہ نیازی میرے پرانے دوست ہیں، جن سے تعارف 1990 کی دہائی میں ہوا۔ اس وقت وہ پاکستان انجینئرز کمیونٹی کے سینئر نائب صدر تھے اور میں اس کا ڈپٹی سیکرٹری جنرل۔ سیاست کے میدان میں ان کے خیالات مجھ سے اگے پیچھے ہوتے رہے،

مگر ہمارا رشتہ دوستی اور مکالمے کا ہے۔ آج ان کی فیملی کے زخم نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اس ملک میں عدل کا چراغ کب روشن ہوگا؟
اگر عدالتیں انصاف دیتیں تو پھر ماورائے عدالت کارروائیوں کی ضرورت کیوں پیش آتی؟ جب قانون کمزور پڑ جائے، تو بندوق فیصلہ سناتی ہے — اور بندوق کبھی انصاف نہیں کرتی۔ انصاف کا راستہ بند ہو جائے تو ظلم کی راہیں کھل جاتی ہیں۔ مگر شاید ہم نے اس حقیقت کو تسلیم ہی نہیں کیا۔
مجھے یاد ہے جب میں جدہ میں تھا تو اُس وقت کے وزیر اعلیٰ غلام حیدر وائیں سے ملاقات ہوئی۔ ہمارے سیکرٹری جنرل مشتاق طفیل نے ان سے سوال کیا: “جناب، آپ پاکستان میں سرمایہ کاری کی بات کرتے ہیں مگر وہاں تو خود پنجاب میں امن نہیں۔”
غلام حیدر وائیں نے پُر اعتماد لہجے میں کہا، “میں حالات ٹھیک کر رہا ہوں۔ پولیس کو حکم دے رکھا ہے کہ جرائم پیشہ عناصر کو پار کر دے۔”
کیا ستم ظریفی ہے کہ کچھ عرصہ بعد وہ خود بھی اُسی انجام سے دوچار ہوئے۔ وہ میاں چنوں کے قریب انتخابی مہم سے واپس آ رہے تھے کہ جہانگیر ملوکا اور اس کے خاندان نے ان کی گاڑی روک کر کلہاڑیوں سے حملہ کیا، اور ایک عوامی وزیر اعلیٰ اپنی ہی زمین پر خون میں نہلا دیا گیا۔


یہ انجام صرف ایک شخص کا نہیں تھا، یہ اُس سوچ کا انجام تھا جو عدلیہ کو نظر انداز کرتی ہے۔ جب فیصلے عدالتوں سے نکل کر پولیس کے ہاتھوں ہونے لگیں، تو انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔
پاکستان کی تاریخ ایسے عبرت ناک انجاموں سے بھری پڑی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ مجرم کون ہے، سوال یہ ہے کہ فیصلہ کون کرے گا؟ کیا عدالتوں کا کام صرف کمزوروں کو سزا دینا ہے؟ کیا آئین اور قانون کا وقار صرف کتابوں تک محدود رہ گیا ہے؟


26ویں ترمیم نے نظامِ عدل کو پیچیدہ بنا دیا۔ یہ ترمیم اُس سوچ کی نمائندہ ہے جو قانون کو کمزور اور اختیار کو طاقتور کے تابع کرنا چاہتی ہے۔ عدلیہ کی آزادی محض لفظوں میں ہے، عمل میں نہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کی خالی عمارت اس قوم کے اعتماد کی خالی تجوری ہے۔ وہاں فیصلے نہیں، فائلیں دفن ہوتی ہیں۔
قیدی نمبر 804 — ایک ایسا مقدمہ جو صرف ایک شخص کا نہیں، بلکہ ایک نظریے کا ہے — کب سنا جائے گا؟ اگر عدالتیں خود کو زندہ رکھنا چاہتی ہیں، تو انہیں یہ مقدمہ روزانہ کی بنیاد پر سننا ہوگا۔ کیونکہ جب انصاف تاخیر کا شکار ہوتا ہے تو ظلم کو تقویت ملتی ہے۔


آج ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ عدالتوں کا سکوت اس قوم کی خاموشی کا آئینہ ہے۔ انصاف اگر بند دروازوں کے پیچھے مر جائے تو معاشرہ لاش بن جاتا ہے۔ تاریخ نے وہ وقت دیکھا جب بادشاہ انصاف کے لیے خود دربار میں پیش ہوتے تھے۔ حضرت عمرؓ کا عدل آج بھی مثال ہے۔ مگر آج کے حکمران عدل سے نہیں، اقتدار سے ڈرتے ہیں۔


ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کب تک ہم عدالتوں کو صرف تقریروں میں یاد کریں گے؟ کب تک انصاف کا چراغ بجھا رہے گا؟ اگر عدلیہ نے خود کو عوام سے الگ کر لیا تو عوام اپنا انصاف خود تلاش کریں گے — اور یہ وہ لمحہ ہوگا جب ریاست کے ستون ہل جائیں گے۔
اس ملک میں بہت سے وائیں، بہت سے نیازی، اور بہت سے 804 پیدا ہو چکے ہیں۔ مگر سوال اب بھی وہی ہے: کیا عدالت زندہ ہے؟ کیا آئین کی روح سانس لے رہی ہے؟
میں چاہتا ہوں کہ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے جج صاحبان ایک دن اپنے دل سے پوچھیں — کیا ہم نے اپنا فرض ادا کیا؟ اگر نہیں، تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی


اور اگر کسی دن قوم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا، تو وہ ان عدالتوں کے سنگِ مرمر پر اپنے آنسوؤں سے وہ سوال لکھ دے گی جس کا جواب شاید کبھی نہیں دیا جائے گا:
“جب عدالتیں خالی تھیں، تو انصاف کہاں تھا؟”