دنیا کی رونقیں ہر روز بدلتی ہیں، مگر کچھ چہرے، کچھ آوازیں، کچھ نسبتیں ایسی ہوتی ہیں جو دلوں میں نقش ہو کر ایک روحانی مہک چھوڑ جاتی ہیں۔
آج امتِ مسلمہ، بالخصوص اہلِ پاکستان، مدحتِ رسولؐ کے ایک سچے خادم، عاشقِ مصطفیؐ، اور بین الاقوامی شہرت یافتہ ثناء خوانِ رسولؐ الحاج گل تعارف احمد نقشبندی کے وصال کی خبر سے غمزدہ ہے۔ یہ محض ایک شخص کا دنیا سے جانا نہیں، بلکہ ایک صدائے دلنشیں کا خاموش ہو جانا ہے جو نسلوں کو عشقِ نبیؐ کا پیغام سناتی رہی۔
ان کی مدحِ رسولؐ ایک عبادت تھی:
نعت خوانی، اگرچہ ایک فنی و جمالیاتی اظہار ہے، مگر جب یہ دل کی گہرائیوں سے ہو، اور عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے لبریز ہو، تو پھر یہ محض فن نہیں رہتی بلکہ عبادت بن جاتی ہے۔
حضرت الحاج گل تعارف احمد نقشبندی کی نعتیں نہ صرف زبان پر جاری ہوتی تھیں، بلکہ سامعین کے دلوں پر بھی اثر کرتی تھیں۔ ان کی آواز میں ایک وجدانی کیفیت، ایک روحانی تاثیر اور ایک محبتِ رسولؐ کا والہانہ پن تھا۔
اگرچہ الحاج گل تعارف احمد نقشبندی عالمِ دین نہیں تھے، مگر ان کی زبان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی کروڑوں دلوں تک پہنچی۔ ان کا ہر ہر نعتیہ کلام صدقہ جاریہ ہے۔ ان کی نعتوں سے لوگوں کے دل نرم ہوئے، آنکھیں نم ہوئیں، اور ایمان تازہ ہوا۔
ان کے لیے ہماری ذمہ داری:
اہلِ ایمان پر فرض ہے کہ ایسے عاشقانِ رسول کے لیے دعائے مغفرت کریں، ان کی خدمات کو یاد رکھیں، اور ان کے مشن کو آگے بڑھائیں۔
اللّٰہ رب العزت ان کی قبر کو نور سے بھر دے، ان کے درجات بلند فرمائے، انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت نصیب کرے، اور ان کی مدحتِ رسولؐ کو ان کے لیے سببِ مغفرت بنائے۔ آمین ثم آمین۔
ایک مشورہ نعت خواں حضرات کے لیے:
نعت محض مشقِ سخن نہیں، بلکہ ایک ذمہ داری ہے۔ حضرت الحاج گل تعارف احمد نقشبندی نے جس آداب، خلوص اور محبت سے نعت کو نبھایا، وہ آنے والے نعت خواں حضرات کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
آخر میں.
لبوں سے نکلی وہ صدا، اب خاموش ہو گئی۔
مگر دلوں پہ جو اثر تھا، وہ باقی رہے گا۔
