کچھ روز قبل راولپنڈی یونین کونسل مغل میں ایک نوجوان کے خلاف ایک مسجد سے تعلق رکھنے والے حافظ صاحب نے توہین رسالت کی ایف آ ر کٹوائی جس کے بعد لڑکے نے ویڈیو بیان دیا
کہ وہ توہین رسالت کا سوچ بھی نہیں سکتا بلکہ حالیہ ربیع الاول کے موقع پر اپنے ہاتھوں سے جھنڈیاں لگاتا رہا ہے اور مقدمہ کے مدعی حافظ صاحب کے میلاد پروگراموں میں بھی شریک ہوتا رہا ہے
واقعہ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لڑکے نے بتایا کہ تحریک لبیک پاکستان سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کے مویشی آئے
روز ان کی فصل اجاڑتے تھے جس کے گلہ کے طور پر وہ ایک دکاندار کو بتا رہا تھا کہ روز لبیک لبیک کے نعرے بھی لگا رہے ہوتے ہیں اور اپنے مویشیوں کو حرام بھی کھلاتے ہیں ساتھ ہی کھڑے حافظ صاحب بھی چونکہ تحریک لبیک کے کارکن تھے وہ سنتے ہی مشتعل ہو گئے
اور لڑکے کو برا بھلا کہا تھوڑی دیر بعد تھانے جا کر توہین رسالت کی ایف آ ئی آ ر کٹوا آ ئے لڑکے کے ویڈیو بیان کے بعد حافظ صاحب
نے بھی منبر پر بیٹھ کر قران پاک ہاتھ میں لے کر چھ منٹ کے لگ بھگ دورانیے کا خطبے کے انداز میں بیان جاری کیا جس میں حلف دیا کہ لڑکے نے توہین رسالت کی ہے اور نازیبا اشارے کیے ہیں
لیکن حافظ صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ اس نے توہین کے کیا الفاظ ادا کیے ہیں ان کے چھ منٹ کے بیان میں یہی نظر آ رہا تھا کہ ان میں اپنی سیاسی و مذہبی جماعت کی توہین کا غصہ تھا جسے وہ توہین رسالت کا نام دے کر دور کر رہے تھے
حالانکہ اگر غور کیا جائے تو ملک میں کئی ا ور مذہبی جماعتیں بھی موجود ہیں ان کے علاوہ پیپلز پارٹی مسلم لیگ اور پی ٹی آئی وغیرہ سب جماعتوں میں مسلمان موجود ہیں جن کے تحریک لبیک کے لوگوں کے ساتھ خونی رشتے بھی ہیں
یہ سب لوگ ناموس رسالت پر جان قربان کرنے والے لوگ ہیں ان حالات میں اگر کوئی بھی آ دمی خواہ وہ کوئی مولوی ہو یا عام آ دمی اگرکسی ذاتی جھگڑے کیلئے انتقام کے طور پر توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگا دیتا ہے تو اس کے خلاف بھی ہر مسلمان کو کھڑا ہونا چاہیے
کیونکہ ایک بہتان کی نذر ہوتا دیکھنے پر خاموشی بھی ہمارے لیے روز قیامت ایک گناہ کی شکل میں سامنے آ سکتی ہے آ ج کل اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب کسی پر توہین رسالت کا الزام لگتا ہے
تو اس کے بعد مساجد میں تقاریر شروع ہو جاتی ہیں جس سے لوگوں کے جذبات ابھرتے ہیں اور توہین ثابت ہونے سے پہلے ہی کوئی شخص ثواب سمجھ کر پولیس کی حراست میں الزام علیہ کو قتل کر دیتا ہے
ہم بھی بغیر سوچے سمجھے قتل کرنے والے کو پیسوں میں تولنا شروع کر دیتے ہیں جس سے انصاف کے تقاضے پورے ہوئے بغیر ہی لوگ قتل ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور ہم اپنے منہ ہی لوگوں کو قاتل کے جنت میں اعلیٰ مقام کی بشارتیں دینا شروع ہو جاتے ہیں
اس ضمن میں تمام مسلمانوں اور بالخصوص حافظ سعد رضوی صاحب اور تحریک لبیک راولپنڈی کو آ گے آ نا چاہیے اور اگر الزام جھوٹا ہو تو الزام لگانے والے حافظ صاحب کے خلاف کاروائی کرنی چاہیے
اور اگر حافظ صاحب کو خود ادراک ہو جاتا ہے کہ ان کو غلط سمجھ آ یا ہے تو انھیں اس لڑکے سے بھی معذرت کرنی چاہے اور اللہ پاک کے حضور بھی معافی مانگنی چاہیے کیونکہ بحثیت انسان ان سے بھی غلطی ہو سکتی ہے
کیونکہ اگر ان کے بہتان کی وجہ سے ایک آدمی موت کے منہ میں چلا جاتا تو حافظ صاحب سمیت ہم سب قیامت کے دن اس لڑکے کے مجرم ہوں گے میں نے بطور صحافی اپنا فرض ادا کر دیا ہے
باقی لوگ بھی انسان اور مسلمان ہونے کے ناطے اپنا فرض ادا کریں اللہ پاک ہمیں حق کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آ مین