آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب ہے۔جس کی آبادی 11 کروڑ سے زائد ہے۔جو کہ کل آبادی کا تقریباً 53% بنتا ہے۔صوبہ پنجاب کے مختلف حصّوں سے نئے صوبے بنانے کی آوازیں ایک لمبے عرصے سے سنائی دے رہی ہیں۔جن میں جنوبی پنجاب،بہاولپور اور پوٹھوہار کی آوازیں سر فہرست ہیں. ایک لمبے عرصے سے صوبہ پوٹھوہار کے لیے آواز اٹھائی جا رہی ہے ۔ خاص طور پر پوٹھوہار کی عوام کی طرف سے سب سے زیادہ آ واز اٹھائی جا رہی ہے لیکن پوٹھوہار سے منتخب ہونے والے نمائندے اس حوالے سے کوئی خاص کام۔کرتے دکھائی نہیں دے رہے۔ منتخب نمائندوں کا تعلق چاہے کسی پارٹی سے بھی ہو لیکن اس مسئلہ میں ان کو یک زبان ہو کر آواز اٹھانی چاہیے۔ پوٹھوہار کا علاقہ راولپنڈی ڈویژن پر مشتمل ہے جس میں 4 اضلاع راولپنڈی ، چکوال ، اٹک اور جہلم پر مشتمل ہے۔ کل آبادی تقریباً 1 کروڑ 7 ہزار سے کچھ زیادہ ہے اور کل 27 صوبائی حلقوں پر مشتمل ہے۔ جن میں 21 نشستیں حکومتی جماعت پی ٹی آئی کی ہیں اس طرح نیا صوبہ بن جائے تو بھی صوبائی حکومت پی ٹی آئی کی ہی رہے گی۔لیکن اس کے لیے پوٹھوہار سے تعلق رکھنے والے منتخب نمائندوں کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ اس کے بعد سب سے ذیادہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی آواز اٹھائی جا رہی ہے۔اور اس حوالے سے ماضی میں قومی اسمبلی اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں قراردادیں بھی پیش کی گئی اور پاس ہوئی ہیں۔اور اسی طرح 2018 میں معرض وجود میں آنے والی اسمبلیوں میں بھی مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے جنوبی پنجاب الگ صوبے کی قراردادیں جمع کرا دی گئی ہیں۔2008 سے 2013 تک معرض وجود میں آنے والی حکومت میں مرکز پاکستان پیپلز پارٹی اور پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت تھی تو اس وقت کے وزیر اعظم جن کا تعلق بھی جنوبی پنجاب سے تھا نے الگ صوبہ بنانے کے لیے کوششیں تیز کی لیکن اس وقت صوبائی حکومت ان کوششوں کے راستے میں رکاوٹ بنی اور اس طرح الگ صوبے کا قیام طوالت کا شکار ہوتا گیا اور جنوبی پنجاب صوبے کا قیام صرف وعدوں اور نعروں تک محدود رہا اس کے بعد 2013 سے 2018 تک بننے والی حکومت مرکز اور پنجاب دونوں میں پاکستان مسلم لیگ ن کی تھیں اور اکثریت بھی حاصل تھی کہ چاہتے تو جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنا سکتے تھے لیکن صرف وعدوں پر کام چلایا گیا اور سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔جنرل الیکشن 2018 میں کامیابی پاکستان تحریک انصاف کو ملی اور الیکشن سے پہلے بننے والا جنوبی پنجاب صوبہ اتحاد کو بھی پی ٹی آئی میں اس وعدے کے ساتھ شامل کر لیا گیا کہ جبوبی پنجاب کو الگ شناخت دی جائے گی لیکن 6 ماہ گزرنے کے باوجود نیا صوبہ بنانے کی طرف کوئی خاص کام نہیں کیا گیا۔ اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ تخت لاہور کا پی ٹی آئی کے ہاتھ سے نکل جانے کا خوف ہے جس کی تفصیل یہ ہے۔
پنجاب کی کل آبادی 110012442 یعنی 11 کروڑ سے زائد ہے۔پنجاب میں کل 9 ڈویژن اور 36 اضلاع ہیں۔تحصیلوں کی تعداد 146 اور یونین کونسلز کی تعداد 7602 ہے۔صوبائی اسمبلی کے کل ممبران کی تعداد 371 ہے جن میں سے 297 جنرل 66 مخصوص برائے خواتین اور 8 اقلیتوں کے لیے ہیں۔
اگر جنوبی پنجاب صوبہ 3 ڈویژنز پے مشتمل بنا دیا جاتا ہے تو ان میں ملتان، ڈیرہ غازی خان اور بہاول پور شامل ہوتے ہیں ان کی کل 11 اضلاع شامل ہیں جن میں بہاول نگر، بہاول پور، رحیم یار خان، راجن پور، لوہدراں ، ویہاڑی، خانیوال، لیہ، مظفر گڑھ، ملتان اور ڈیرہ غازی خان شامل ہیں۔ ان کی کل آبادی تقریباً ساڑھے 3 کروڑ بنتی ہے۔ ان ڈویژنز میں صوبائی اسمبلی کی جنرل نشستوں کی کل تعداد 95 بنتی ہے اور ان میں سے پی ٹی آئی اور پاکستان مسلم لیگ ق کے ممبران کی تعداد 57 ہے اس کے مطابق جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی آسانی سے حکومت بنا سکتی ہے لیکن اگر باقی پنجاب کی طرف نظر دوڑائی جائے تو 6 ڈویژنز ( 25 اضلاع) کی کل آبادی تقریباً ساڑھے 7 کروڑ بنتی ہے اور ان ڈویژنز میں صوبائی جنرل نشستوں کی کل تعداد 202 ہے اور ان۔میں سے 103 پاکستان مسلم لیگ ن نے کامیابی حاصل کی ہوئی ہے اس طرح سادہ اکثریت حاصل ہو جائے گی۔ اور تخت لاہور پر قبضہ ایک بار پھر شریف برادران کا ہو گا۔ دوسری طرف اگر جنوبی پنجاب کے قریب ترین واقع ساہیوال ڈویژن کو شمالی یا وسطی پنجاب سے نکال کر جنوبی پنجاب میں شامل کر دیا جات ہے تو اس ڈویژن میں 3 اضلاع ساہیوال، پاکپتن اور اوکاڑہ جنوبی پنجاب کا حصہ بن جائیں گے ان کی کل آبادی تقریباً 74 لاکھ ہے اور ان میں صوبائی اسمبلی کی جنرل نشستوں کی تعداد 20 ہے اس طرح جنوبی پنجاب کی کل 115 جنرل نشستیں ہوں گی جن میں سے پی ٹی آئی اور اتحادیوں کی کل 62 جنرل نشستیں ہوں گی اور صوبائی حکومت جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی کی ہی ہو گی اس کے برعکس باقی پنجاب میں ساہیوال ڈویژن کے نکلنے کے بعد کل جنرل سیٹوں کی تعداد 182 ہو جائے گی جس میں پاکستان مسلم لیگ ن کو 89 اور تحریک انصاف 83 اور پاکستان مسلم۔لیگ ق کی 6 پی پی پی کی 1 راہ حق کی 1 آزاد 2 کامیاب ہوئے ہیں جبکہ 1 نشست حلف نہ لینے کی وجہ سے خالی ہے۔ اس طرح ن لیگ کی 89 کے مقابلے میں حکومتی اتحاد کی بھی 89 بن جاتی ہیں اور حکومت کے لیے 92 ممبران کی حمایت چاہے۔ آزاد جیتنے والے 2 ممبران میں چودھری بلال اصغر ہیں جو کی ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ہیں اور ایک اور آزاد رکن راولپنڈی سے ہیں چودھری نثار علی خان جنہوں نے ابھی تک حلف نہیں لیا۔ اس طرح پی ٹی آئی کو تخت لاہور سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔ پنجابیں حکومت بنانے کے لیے پی پی پی کی ایک سیٹ یا pp 10 کے منتخب نمائندے اور راہ حق کی ایک سیٹ کا کلیدی کردار ہو گا۔
مندرجہ بالا تفصیل کے بعد اس بات کا قوی امکان ہے کی موجودہ حکومت بھی صرف وعدوں تک ہی محدود رہے گی اور کبھی بھی یہ نہیں چاہے گی کہ تخت لاہور ان کے ہاتھ سے نکل جائے اور وہاں دوبارہ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہو۔ ایسا ہی 2008 سے 2013 کی اسمبلی میں بھی یوا تھا کی جنوبی پنجاب سے اس وقت کی حکمران جماعت کا خاتمہ ہونا تھا اور وہاں پنجاب میں موجاد اپوزیشن کی حکومت قائم ہونی تھی ۔
ہر حکومت صرف اپنے مفاد حاصل کرنے والے منصوبوں کو مکمل کرتی ہے اور عوام کی ڈیمانڈ یا عوام سے کیے گئے وعدوں سے مکر جاتی ہے۔ آج کی اپوزیشن اب جس طرح نیا صوبہ بنانے کے لیے کوششیں کر رہی ہے یا جس طرح خواب دیکھا رہی ہے اس طرح اگر حکومت ہیں ہوتے ہوئے سوچتی تو آج تک صوبہ بن چکا ہوتا۔جنوبی پنجاب صوبہ بننا بھی موجودہ حکومت کے اپنے مفاد سے ٹکراو ہے اور موجودہ پنجاب حکومت اپنے ہاتھ سے لاہور کی حکمرانی نہیں جانے دے گی۔اس لیے نئے صوبے کا قیام ایک خواب ہی رہے گا۔ الیکشن سے پہلے کیے گئے وعدوں کو پہلی حکومتوں کی طرح دوبارہ آنے والے جنرل الیکشن میں دھرائے گی اور پھر سے سہانے خواب دیکھانے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ حکومت اور اپوزیشن کو صرف اپنے مفاد کو سوچنے کے بجائے ایک قومی سوچ رکھنا ہو گی اور عوام کی سہولیات کی طرف توجہ دینی ہو گی اور انتظامی معملات عوام کے قریب سے قریب تر کرنے ہوں گے اور الیکشن سے پہلے کیے گئے وعدوں پر عمل بھی کرنا ہو گا۔اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے اس بات کا ادراک کیا جا سکتا ہے کہ ماضی میں منتخب اسمبلیوں سے قرار دادیں پاس ہونے کےباوجود اور جنوبی پنجاب سے وزیراعظم منتخب ہونے کے باوجود اگر جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ نہ بنایا جا سکا تو صوبہ پوٹھوہار بننا تقریباً ناممکن لگتا ہے۔ اور اس علاقے کی عوام۔کو صرف اور صرف وعدوں پر ہی گزارا کرنا پڑے گا۔ اور انتظامی معملات کے لیے دور دراز اور تخت لاہور کا محتاج ہی رہنا پڑے گا۔