192

تحریک کہوٹین حق کی آواز بن گئی

مر جائیں گے ظالم کی حمایت نہ کریں گے
اَحرار کبھی ترک روایت نہ کریں گے
تاریخ عالم اس بات پر شاہد ہے کہ جہاں جہاں قوانین کو پاؤں کے نیچے روندنے والے انسان نمودار ہوئے وہاں وہاں پرچم حق کو بلند کرنے والے لوگوں نے بھی ظلم کی کالی گھٹاؤں کو اپنے جذبہ ء ایمانی سے نور سلامتی میں تبدیل کر دیا، محترم المقام راجہ ناصر صاحب
اور باشعور نوجوانوں کی قیادت میں کہوٹہ سے اٹھنے والی”کہوٹین یوتھ“ نامی تحریک نے اپنے
عمل اور جذبہ ء ایثار سے یہ ثابت کر دکھایا کہ
؎ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
ہر منصف مزاج انسان جو اس تحریک کی قربانیوں اور تاریخ سے واقف ہے بخوبی اس حقیقت سے آشنا ہے کہ یہ تحریک ہمیشہ ظلم، ناانصافی،بددیانتی اور حق تلفی جیسے سنگین جرائم کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑی رہی، کھڑی ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ یوں ہی کھڑی رہے گی۔کیونکہ یہ نعرہ اس تحریک کے عملی اقدامات کا عنوان ہے کہ
؎خون دل دے کے نکھاریں گے رخ برگ
گلاب ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے محترم باسط عباس صاحب کی وساطت سے
اس تحریک کے اقدامات کے حوالے سے شواہد میسر آتے رہتے ہیں،یقین جانیے بغیر کسی لالچ و دنیوی سٹیٹس کے اپنی صلاحیات کو بروئے کار لاتے ہوئے شام و سحر معاشرے کی اصلاح کا جذبہ لیے ایسے اقدامات کا اہتمام کرنا فی زمانہ جہاد سے کم نہیں اور جس قدر ہو سکے ایسی تحریکوں میں عملی شمولیت کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ آپ یہ بات کہنے میں کوئی عار محسوس نہ کریں کہ
؎ہمارا خون بھی شامل ہے تزئینِ گلستاں میں
ہمیں بھی یاد کر لینا چمن میں جب بہار آئے
ارجنٹینا کے انقلابی ہیرو”جی گویرا“ نے کہا تھا ”انقلاب کوئی پکا ہوا پھل نہیں ہوتا جس نے ایک دن زمین پر ضرور گرنا ہے“انقلاب لانا پڑتا ہے جدو جہد کرنی پڑتی ہے انقلاب خواب دیکھنے سے کبھی نہیں آتے یہ ایک بہتر زندگی کا عمل ہے موت کا خوف انقلابی کی موت ہے یہ آگ اور خون کا کھیل ہے کمزور دل اور کم ظرف اس میدان سے دور رہیں آزاد منش انسان غلامی میں جی ہی نہیں سکتا آزادی کے اس سفر میں موت کا سامنا دلیری سے کیا جاتا ہے اگر جی گویرا کے مذکورہ انقلابی فلسفے کو سامنے رکھتے ہوئے تحریک کہوٹین کی جدو جہد کا معائنہ کیا جائے تو وہ تمام باتیں ہمیں اس تحریک کے سربراہان سے لیکر کارکنان تک سب میں بدرجہ اتم دکھائی دیتی ہیں جو ایک تحریک کی کامیابی کی ضامن ہوا کرتی ہیں۔کسی معاشرے کے چند منصف مزاج نوجوانوں کا مل کر ایک تحریک کی بنیاد رکھنا اور شب وروز جہد مسلسل سے ایک لشکر جرار کی صورت میں نمودار ہونا کوئی معمولی بات نہیں یقیناً اس تحریک کی بنیادوں میں اخلاص، وارفتگی، استقامت اور شیر دلی جیسی عظیم صفات شامل ہیں جبھی اتنے کم وقت میں اللہ تعالیٰ نے اس تحریک کو کامیابی و کامرانی سے ہمکنار فرمایا۔تحریک کہوٹین کا منشور جب میری نظروں سے گزرا تو ٹائٹل پیج پہ فراز احمد فراز کا یہ شعر کہ
؎شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
نیز علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا فلسفہ حقیقت امامت اور منشور کی تمام تر جزئیات پڑھ کر اس بات کا یقین ہوا کہ جو تحریک نظم و ضبط‘پابند قوانین اور درد انسانیت کو اپنا شعار بنانے کی علمبردار ہو اس کو ترقی و کامیابی کا سفر طے کرنے سے زمانے کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔اس تحریک کے تمام کارکنان کو اللہ عزوجل مزید اخلاص کا نور عطا فرمائے اور اللہ کرے اسی طرح یہ مجاہدین اپنے حق کی خاطر انصاف کا پرچم بلند کرتے رہیں
؎اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصداوروں کے کام آنا

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں