مولانا محمد اسرار الحق/اس میں کسی مسلمان کو شبہ نہیں ہوسکتا کہ آنحضرت کا اس دنیا میں تشریف لانا، تاریخ انسانیت کا اتنا عظیم واقعہ ہے کہ اس سے زیادہ عظیم، اس سے زیادہ پُرمسرت، اس سے زیادہ مبارک اور مقدس واقعہ اس روئے زمین پر پیش نہیں آیا، انسانیت کو نبی کریم کی تعلیمات کا نور ملا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس شخصیت کی برکات نصیب ہوئیں، یہ اتنا بڑا واقعہ ہے کہ تاریخ کا اور کوئی واقعہ اتنا بڑا نہیں ہوسکتا۔حضور ؐکی مبارک زندگی کو پڑھا اور سنا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ انسانی عظمت کی جہاں انتہا ہوتی ہے، وہاں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتوں کی ابتدا ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معیارِ زندگی اتنا اعلیٰ واطہر تھا کہ آپ صلی اللہ علی وسلم نے اپنی زندگانی کی خواہشات کو رضائے الٰہی پہ قربان کیا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو رضائے باری تعالیٰ کا مظہر تھی، بندگی وعبودیت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ناز تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چلن پر زمین رشک کرتی تھی، پتھر موم بن جاتے تھے۔ اولاد کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پدری جذبہ تمام والدین کے لیے نصابِ فوز وفلاح ہے، انسانوں پر آپ صلی علیہ وسلم کا جذبہ ترحم وشفقت بے مثال تھا، دشمنوں پر عفو ودرگزر کمال تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس بستی میں پیدا ہوئے وہ تاحشر انسانیت کے لیے مرکزِ خیر بن گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جن پشتوں کے واسطے سے آئے ان کی طہارت ونظافت، پاکیزگی وشرافت اورحسن وجمال بے مثال حقیقتِ لازوال بن گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسب ونسب آسمان کی طرح کھلی کتاب اورسفید بادلوں کی طرح صاف وشفاف ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”أنا أنفسکم نسبًا وصہرًا لیس فی آبائی من لدن آدم سفاح، کلنا نکاح۔“ ”میں باعتبارِ حسب ونسب افضل اور بہتر ہوں‘ میرے آبا و اجداد میں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک کہیں زنا نہیں، سب نکاح ہے۔”(بحوالہ سیرۃ المصطفی)حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ماجد اور والدہ ماجدہ تک جس قدر آبا واجداد اور اُمہات وجدات سلسلہ نسب میں واقع ہیں، وہ سب کے سب محصنین اور محصنات یعنی سب عفیف اور پاکدامن تھے، ایسے نیک بندے کہ جن کو حق تعالی شانہٗ نے اپنی نبوت ورسالت کے لیے منتخب فرمایا ہو تو ان کا سلسلہ نسب ایسا ہی پاک اور مطہر ہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے جس ہستی کو اپنا مصطفی اور مجتبیٰ بنایا تو اس سے پہلے اس کے نسب کو ضرور مہذب اور مصفی بنایا۔قیصر روم نے جب حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب کے متعلق سوال کیا کہ:”کیف نسبہ فیکم؟“ان کانسب کیساہے؟ تو ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:”ہو فی حسب ما لایفضل علیہ أحد،” حسب (ونسب اور خاندانی شرافت) میں کوئی ان سے بڑھ کر نہیں،”تو قیصر روم نے کہا: یہ بھی ایک علامت ہے۔“یعنی نبی ہونے کی ایک علامت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان اعلیٰ اور اشرف ہے۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا سلسلہ نسب جو عالم کے تمام سلاسلِ انساب سے اعلیٰ اور سب سے افضل وبہتر ہے، وہ شجرۃ النسب یہ ہے: ”سیدنا ومولانا محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبد اللّٰہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرۃ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانۃ بن خزیمۃ بن مدرکۃ بن إلیاس بن مُضر بن نزار بن معد بن عدنان(بخاری شریف)حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نسب شریف کو بیان فرماتے تو عدنان سے تجاوز نہ فرماتے، عدنان تک پہنچ کر رُک جاتے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آباء وجداد کا مختصر تذکرہ وتعارف عبد المطلب رحمہ اللہ تعالی: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا جونہایت حسین وجمیل تھے۔اورتمام قریش میں سب سے زیادہ سخی اور کریم اور سب سے زیادہ شر اور فتنے سے دور رہنے والے تھے اور قریش کے مسلَّم سردار تھے۔آپ کی مہمان نوازی انسانوں سے گزر کر چرند پرند تک پہنچ گئی تھی، اسی وجہ سے عرب کے لوگ آپ کو فیاض اور مطعم طیر السماء (آسمان کے پرندوں کو کھانا کھلانے والے) کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ شراب کو اپنے اوپر حرام کیا ہوا تھا۔ غارِ حرا میں سب سے پہلے خلوت عبد المطلب رحمہ اللہ ہی نے کی۔ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ:آپ ؐ کے والد ماجد حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی طرح ذبیح اللہ ہیں یہ وہ نام ہے جو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے، جیساکہ حدیث شریف میں ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ دو نام محبوب ہیں: ایک عبد اللہ اور دوسرا عبد الرحمن۔حضرت عبد المطلب ؒ کو جب اپنے فرزند عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی شادی کی فکر دامن گیر ہوئی تو قبیلہ زہرہ جوکہ شرافت نسبی میں ممتاز تھا،اس میں وہب بن عبد مناف کی صاحبزادی سے جن کا نام حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا تھا، ان کے گھروالوں کو نکاح کا پیغام دیاحضور ؐکے نسبِ اطہر میں آبا و اجداد اپنے زمانے والوں پر بے شمار صفاتِ عالیہ وحسنہ کے ساتھ ممتاز وبرتر رہے ہیں کوئی سخاوت میں نمایاں ہے تو کوئی شجاعت میں، کوئی حسن کا بادشاہ ہے تو کوئی سرتا پا جلوہ گاہ ہے، کسی کی دہلیز پر حکمت کا بسیرا ہے توکسی کے سراتحاد بین القبائل کا سہرا ہے، کسی کی نورانی پیشانی پر بادشاہ وملوک نازاں ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک خاندان میں حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے حضرت عدنان تک سب کے سب بے شمار خوبیوں سے مزین ہیں اور پھر ان سب خوبیوں، بھلائیوں اور عمدہ صفات کے حامل، جود وکرم کے برستے مینہ، حسن کی بہاروں اورکرم نوازیوں سے لبریز اگر کسی ہستی کو دیکھنا ہو تو وہ ہستی، وہ ذات مصطفی و مجتبیٰ،ناصر ومنصور، شاہد ومشہود، حق مبین، نبی اکرم، شفیع محشر،حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات ہے۔ آدم کیلیے فخر یہ عالی نسبی ہے مکی مدنی ہاشمی و مطلبی ہے اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم سب کو نبی علیہ السلام کی سچی محبت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنانے کی توفیق عطا فرما دے(آمین)
262