وہ ایک سیلف میڈ محنتی اور درد دل رکھنے والی شخصیت ہیں ان کا شمار شہر کے سیاسی ،سماجی ،کاروباری اور فلاحی رہنماؤں میں ہوتا ہے اپنی محنت ،ایمانداری اور انسانی خدمات کے باعث لوگ ان کے بارے میں اچھے خیالات کا اظہار اوران کی رائے کا احترام کرتے ہیں انہیں دولت کی کوئی کمی نہیں ہے جہاں ایک طرف ان کا کاروبار کئی شہروں میں پھیلا ہوا ہے تو دوسری طرف ان کے بیٹے محنت میں کوئی کسر نہ چھوڑے ہوئے امریکہ میں بھی اپنے قدم جمائے ہوئے ہیں چند ماہ پہلے معلوم ہوا کہ ان کے اہل خانہ بیٹی کی شادی کے سلسلے میں امریکہ سے پاکستان آئے ہوئے ہیں عزیز رشتہ دارآس پاس کے لوگ یعنی ہمسائے وغیرہ اور شہر کی مشہور شخصیات اس انتظار میں تھیں کہ انہیں جلد ہی شادی کا کارڈ موصول ہو جائے گا پھر ایک دن سب کو یہ حیرت انگیز خبر ملی کہ ان کی بیٹی کی شادی ہوگئی ہے عزیز رشتہ داروں ،دوستوں اور ہمسائیوں کے علاوہ تمام سیاسی شخصیات نے انہیں شکوہ کیا کہ انہیں اپنی بیٹی کی شادی کا دعوت نامہ تک نہیں بھیجا گیا ہر کوئی یہی سوچ رہا تھا کہ شاید باقی سب کو بلایا گیا ہے مگر صرف اسے ہی نہیں بلایا گیا اور سب اس بات کاکھوج لگانے میں مصروف تھے کہ شادی کی تقریب شہرکے کس ہال میں منعقد کی گئی فنکشن کتنا بڑا تھا تقریب میں مہمانوں کی تعداد کتنی تھی اور یہ فنکشن کس تاریخ کو ہوا تھا لیکن جب سب کوجواب ملتا تو سب کی حیرت کی انتہانہ رہتی دراصل انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی انتہائی سادگی سے کی تھی مہندی والی رات قرآن خوانی کا اہتمام کیا گیا اور کسی مدرسے کے بچے یامولوی حضرات کو بلانے کی بجائے اہل خانہ نے مل کر قرآن خوانی کی ہمسایوں تک کو بھی اس لیے نہیں بلایا کہ اگر انہیں فنکشن میں ہی دعوت نہیں دی گئی تو پھر قرآن خوانی میں تو بلانے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا اور جب ہم سب مسلمان ہیں تو ہم خود نیک کام کیوں نہیں کر سکتے دکھاوا کرنے کی کیا ضرورت ہے اگلے دن بارات میں خواتین اور مردوں سمیت صرف 20 تا 25 لوگ آئے تھے اور یہاں قابل ذکر بات یہ تھی کہ دولہے کی والدہ سرکاری ملازمت میں مصروفیات کے باعث تشریف ہی نہ لاسکیں ادھر ان کی طرف سے بھی گھر کے افراد اور چند بہت ہی قریبی عزیز رشتہ دار استقبال کے لیے موجود تھے جن کی تعداد بھی 20 یا25 سے زیادہ نہ تھی اس طرح کل 40 یا50 افراد کی موجودگی میں نکاح کی تقریب انتہائی سادگی سے گھر میں ہی انجام پائی گئی بیٹی نے سلامی میں ملنے والی ساری رقم غریبوں اور یتیموں کے کپڑوں و خوراک کے بندوبست کے لیے عطیہ کر دی شادی میں پہنے جانے والے کپڑے بھی درمیانی قیمت کے تھے یعنی جورقم ملبوسات پر خرچ ہونا تھی اس کو ضرورت مندوں میں راشن کی صورت میں تقسیم کردیا گیا اگلے روز یعنی ولیمہ کے دن جہاں تمام گھر والے دولہا کے شہر گئے تو وہاں وہ صاحب خود چند ضروری مصروفیات کے باعث نہ جا سکے اور پھر چند روز بعد دولہے کو ویزا ملنے پر دولہا اور دلہن امریکہ روانہ ہوگئے اس سارے واقعہ پر جہاں ایک طرف لوگوں کو یقین نہیں آرہا تھا تو دوسری طرف کوئی لاتعلقی اور کم ضرفی کا شکوہ کررہا تھا تو کوئی کنجوسی کاطعنہ دے رہا تھا صرف چند لوگ ہی ایسے تھے جو خوش ہو رہے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ یہ اسلامی اصولوں اور آج کل کے حالات کے عین مطابق ہے یعنی غیر ضروری رسم ورواج پر لاکھوں روپے ضائع کرنا کونسے مذہب کی پیروی کرنا ہے اتنی غربت اور مسائل میں غیر ضروری نمودونمائش اپنے مذہب اور لوگوں کی غربت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے جہاں دولت شہرت اور امریکہ کا نام آجائے وہاں تو کنجوس سے کنجوس لوگ بھی اپنی بیٹیوں یا بیٹوں کی شادیوں میں رقم خرچ کرتے وقت اپنے مذہب اور اپنے ملک میں بسنے والے غریب لوگوں کو بالکل ہی بھول جاتے ہیں ہمارے ہاں اسلامی قوانین پر عمل کرنے سادگی اختیار کرنے یا پھر غیر ضروری رسم ورواج سے منہ موڑنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے اُن کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ہم نے مجبوری اور اپنی ناک کی خاطر فیصلے کرنے ہوتے ہیں ناکہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ورضا حاصل کرنے کے لیے اگر ہمیں ذرا سا بھی احساس ہے کہ ہمارے ملک میں غربت ہے اور جو لوگ غریب ہیں وہ بھی انسان ہیں انہیں بھی حق حاصل ہے کہ وہ کم از کم اپنے رہن سہن کھانے پینے اور ڈھانپنے کی ضروریات پور ی کر سکیں توہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہوگا سب کے طعنوں کی اور ناراضگی کی پروا کیے بغیر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے ڈرنا چاہیے آج آٹے کے 20 کلوتھیلے کی قیمت چھ صدروپے کے قریب ہے ہماری تھوڑی سی توجہ سے ہم اپنی کئی فضولیات ترک کرکے کتنی ہی بیواؤں کے گھروں میں انہیں راشن مہیا کر سکتے ہیں یہاں بات صرف اور صرف سمجھنے کی ہے اس دنیا میں رسم و رواج نے کبھی آج تک کسی کا نام روشن نہیں کیا ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں راہِ حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔{jcomments on}
143