اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب سورہ بقرہ میں فرمایا۔ ہم تمہیں لازماً آزمائیں گے۔ کسی قدر خوف اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور ثمرات کے نقصان سے اور (اے نبی ﷺ بشارت دیجیے
ان صبر کرنے والوں کو۔عام طور پر ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اکثر لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ وہ کسی طرح بھی آزمائش میں نہیں ہیں ان کی زندگی بہترین گزر رہی ہے
۔ان کو یہ خبر بھی نہیں ہوتی یہ مال و دولت اور آسائش بھی ایک آزمائش ہی ہے۔جو مال اور دولت دیا گیا اس پر شکر کتنا ہے اور اللہ کی راہ میں خرچ کتنا ہے۔اسی طرح سے کسی کو کم رزق دے کر آزماتا ہے
کہ اس کے اندر صبر کتنا ہے۔ پھر کسی پیارے کی جان لیکر یا پھر خوف ڈر اور بیماری سے انسان آزمایا جاتا ہے۔اس کا یہاں ذکر کرنا اس لیے ضروری تھا کہ راقم خود اس آزمائش سے گزرا لیکن میرے خیال سے میری آزمائش میں مال سے زیادہ خوف و ڈر اور چھوٹی بیٹی کی بیماری زیادہ شامل تھی۔
تین سال کے بچی پر کیا آزمائش ہوسکتی ہے اصل آزمائش تو والدین پر ہوتی ہے۔تین سال پہلے چھوٹی بیٹی کو دل کے مرض کی تشخیص ہوئی تو بہت پریشانی ہوئی۔آزاد کشمیر والوں کے لیے یہ المیہ ہے کہ علاج معالجے کے لیے راولپنڈی یا لاہور کی طرف رخ کرنا پڑتا ہے۔
روٹین میں بچی کے چیک اپ کا سلسلہ شروع ہوگیا ڈاکٹر صاحبان کا کہنا تھا کہ وقت کہ ساتھ ساتھ ممکن ہے بچی کے دل کا سوراخ فِل ہو جائے اگر فِل نہیں ہوا تو پھر سرجری کروانی پڑے گی۔
ورنہ دس پندرہ سال کی عمر میں اس کا علاج کافی خطرناک ہو جاتا ہے۔اس طرح کے کیس میں زیادہ تر جوانی میں ڈیتھ ہو جاتی ہے اگر بروقت اس کا علاج نہ کروایا جائے۔اس طرح کی تمام صورت حال سن اور دیکھ کر میں پریشان ہو جاتا۔ہر وقت میرے ذہن میں یہ بات سوار رہتی کہ چھوٹی مکمل طور پر صحت یاب کیسے ہوگی
ایک عجیب قسم کا خوف دل و دماغ میں چھایا رہتا۔ مسلسل تین سال بیٹی کو چیک اپ کروانے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے بول ہی دیا کہ چھوٹی کی اوپن ہارٹ سرجری ہوگی
اس کے علاؤہ کوئی حل نہیں۔خوف اس چیز کا تھا کہ رپورٹس میں بچی کا بہت بڑا مسئلہ تھا لیکن بظاہر بچی کو کوئی تکلیف نظر نہیں آ رہی تھی اس صورتحال میں کیسے اوپن ہارٹ سرجری کروائی جائے
خاندان والوں کی نظر میں بچی بظاہر صحیح اور تندرست نظر آرہی۔اس طرح کی ایمرجنسی بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔بقول ڈاکٹروں کے جتنا دیر کریں گے معاملہ اتنا خراب ہوگا۔میں اور میری بیوی ذہنی طور پر بیمار رہنے لگے
اس خوف اور ڈر سے نکلنے کے لیے دونوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ اس سے نکلنے کا صرف ایک حل ہے چھوٹی کی اوپن ہارٹ سرجری کروائی جائے
تمام معاملات اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں بیٹی کا علاج ضرور کرواوں گا باقی زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔سرجن سے رابطہ کیا گیا بچی کو چیک کروایا
اس نے وقت اور اخراجات دونوں بتا دیے۔رقم کا فوری طور پر بندوبست ہوگیا جس کے لیے میں اپنے دوستو اور بھائیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے آزمائش کے وقت میری مدد کی ایک ملازم آدمی دس سے بارہ لاکھ کا فوری طور انتظام کیسے کرسکتا ہے۔
اور جس خطہ میں ہم رہتے وہاں پر علاج کی کوئی سہولت موجود نہ ہے یہاں پر صرف معمولی تشخیص سنٹر(KiC) موجود ہے جن کا صرف یہ کہنا ہوتا ہے کہ مریض کو پنڈی یا لاہور لے جاؤ۔
آزاد کشمیر میں ایک بھی ہارٹ ہسپتال موجود نہیں جہاں پر سرجری ممکن ہو۔ایک غریب اور سفید پوش آدمی کے لیے علاج کروانا تقریباً ناممکن ہی ہوتا ہے۔
چیک اپ کروانے کے بعد سرجن ایک ہفتہ کے بعد کا وقت دیا۔اس دوران میں نے رقم اور خون کا بندوبست کرلیا خون کا عطیہ دینے والے بھائیوں کا بھی میں شکر گزار ہوں
جنہوں نے آزمائش کی گھڑی میں میرا ساتھ دیا۔یہ ایک ہفتہ کا وقت میرے لیے کسی خوف و ہراس سے کم نہ تھا۔ نو اکتوبر کو بچی کا آپریشن تھا مجھے اُس دن سب زیادہ خوف اور ڈر یہ تھا
کہ سب کی نظر میں بچی بظاہر بلکل ٹھیک ہے یہ چھوٹی کے ساتھ ظلم کر رہا ہے۔لیکن مجھ کو اپنے مالک پر پورا یقین تھا کہ انشاء اللہ ضرورآپریشن کامیاب ہوگااپنی زندگی کا پہلی بار اتنا مشکل ترین وقت گزارا اور اللہ پاک نے آزمائش سے سرخرو کیا۔میری اللہ پاک سے دعا کہ کسی بھی والدین کو ایسی آزمائش میں نہ ڈالے۔
یہاں اس واقعہ کا ذکر کرنے کا مقصد یہ تھا۔کہ جب اللہ پاک نے فرما دیا کہ ہم آپ کو ضرور آزمائیں گے تو پھر ہمیں آزمائش پر صبر کرنا چاہیے۔دوسری بات یہ کہ علاج کروانا سنت ہے
اگر آپ کسی ڈاکٹر سے رہنمائی لے رہے ہیں تو پھر اس کی بات پر بروقت عمل بھی کرنا چاہیے۔دیر کرنے سے نقصانات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
تیسری بات یہ کہ ہمیں اپنے سیاسی نمائندوں کو صرف گلی نالی اور سڑک کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ علاج کے لیے ہسپتال وغیرہ کا مطالبہ بھی ان کے سامنے رکھنا چاہیے
آزاد کشمیر میں ایک بھی اعلیٰ معیار کا ہارٹ ہسپتال موجود نہیں ہے۔کم ازکم ہر ڈویژن میں ایک ہسپتال ضرور ہونا چاہیے تاکہ ضرورت پڑنے پر غریب مسکین لوگ بھی اپنا علاج کروا سکیں۔