333

بھارت اور مسلم کش فسادات

پروفیسر محمد حسین/بعض مسلمانوں کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ پاکستان نہیں بننا چاہیے تھا اور ہمیں ہنددوں اور سکھوں کے ساتھ مل کر رہنا چاہیے تھا لیکن یہ تو بے غیرتی کی انتہا ہے ایسے بے غیرت و بے جمعیت لوگوں کی مقدر تباہی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟کہا جاتا ہے کہ انسان بیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے تہذیب و تمدن کی بلندیوں کو چھو رہا ہوگا اور وہ وحشیانہ جنگلی عادات و اطوار کو پیچھے چھوڑ کر خوش شفی شرافت انسانیت محبت و اخلاص اور شائستگی کے اعلیٰ اوصاف کا حامل ہو چکا ہو گا مگر اسی صدی کے آخری دہائی کے اوائل میں سورت (بھارت)میں وحشیانہ قتل عام نے یہ ثابت کر دیا کہ ہندو عجزو انکساری خوش خلقی اور انسانیت کا نقاب تو چڑھا سکتا ہے مگر موقع پاتے ہی اس جھوٹے نقاب کو اس تیزی سے اتار پھینکتا ہے کہ سیدھے سادے مسلمان اس کی بھیانک خوف ناک درندہ نما شکل دیکھ کر ششدر رہ جاتے ہیں اور چند ثانیوں میں اس کی درندگی یا اپنی سادگی کا شکا ر ہو کر صفحہ ہستی سے نابود ہو جاتے ہیں تقسیم برصغیر سے لیکر اب تک بھارت میں ہونے والے مسلم کش فسادات اس درندگی کا ثبوت ہیں کہ ہر فساد میں شرپسندی‘ مذہبی جنونی ہندووں نے مسلمانوں کے ساتھ انسانیت کو بھی ذبح کر کے رکھ دیا اورمسلمانوں کے ساتھ وہ سلوک روا رکھا گیا کہ درندے بھی اس کے تصور سے کانپ اٹھتے ہیں نہتے مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح سگاکی سے کاٹا گیا مسلمان عورتوں کی اجتماعی آبروریزی کی گئی چھوٹے چھوٹے بچوں کے ٹکڑے کیے گئے اور نوزائیدہ بچوں کو لوہے کی سلاخوں میں پرو کر ماں باپ کے سامنے کباب کی طرح بھونا گیا 1947ء میں ہندووں نے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے مکاری اور فریب کا ہر ممکن طریقہ استعمال کیا اگر کسی محلے میں مسلمانوں کی اکثریت ہوتی تو ہندو فورا امن کمیٹی بنا لیتے مسلمانوں کو اس میں شامل کرنے بڑھ چڑھ کر تقریریں کرتے‘مدتوں ساتھ رہنے اور ہمسائیگی اور بھائی چارے کا حق جتاتے اور ایک دوسرے کی حفاظت کا ذمہ لیتے مگر اصل مقصد مسلمانوں کو اپنے دفاع سے غافل کرنا ہوتا جونہی ہندو سکھوں کا حملہ ہوتا یہی ہندو محلہ دار ان کے ساتھ مل کر اپنے مسلمان ہمسائیوں پر چھریاں چلاتے اور جنھیں یہ ماں جی‘ دیدی اور بیٹے کہتے تھے انہی کی عصمت دری کرتے اگر پولیس یا فوج کو خبر ملتی کہ فلاں محلے میں مسلمان زبردست دفا ع کر رہے ہیں تو حکومت کے نمائندے وہاں پہنچ کر مسلمانوں کے سربراہوں کو بتاتے کہ ہم نے تمہیں بحفاظت پاکستان پہنچانے کا بندوبست کر لیا ہے لہذا سب تیار ہو جاو اس دوران ان کی تلاشیاں لے کر ان سے سب کچھ چھین لیتے اور پھر یہ محافظ قافلے کو احتیاط کے ساتھ ایسی جگہ لے جاتے جہاں ہندو مسلحوں کے جتھے مسلمانوں کی گھات میں بیٹھے ہوتے وہاں پہنچتے ہی وہ قصابوں کی طرح ان پر ٹوٹ جاتے اور یہ نام نہاد محافظ مسلمانوں کا خون بہانے میں ان قصائی درندوں کا ہاتھ بٹاتے کئی دفعہ ایسا ہوا کہ سالہا سال کا جگری ہندو دوست اپنے مسلمان دوست کے خاندان کو مصیبت میں دیکھ کر اپنی دوستی کا واسطہ دے کر اپنے گھر لے گیا اور مسلمان بھی اس کی دوستی پر اعتبار کرتا ہوا اس کے گھر چلا گیا مگر گھر پہنچتے ہی وہ انھیں قتل کر دیتا یا ہندو بلوائیوں کے حوالے کر دیتا جو ان کی بے کسی دیکھ کر دل کھول کر مشق ستم کرتے کہتے ہیں کہ مومن وہ ہے جو ایک ہی سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا لیکن حیرت ہے کہ پاکستان کے مسلمان اپنے آپ کو دوبارہ ڈسوانے کی کوشش کر رہے ہیں اس لیے کہ ہمارے عوام اور طالب علموں کو تاریخ کا یہ خونیں باب پڑھایا ہی نہیں گیا ان کو ہندو کی اصلیت کا پتہ ہی نہیں وہ ان کی میٹھی اور چکنی چپڑی باتوں میں یقین کر لیتے ہیں حالانکہ سمجھوتہ ایکسپریس میں دھماکہ اور بے گناہ مسلمانوں کا بے رحمانہ قتل ان نا سمجھ مسلمانوں کو یاد دلانے کے لیے کافی ہے جو ہندو اور ہندو ستان کی محبت میں وہاں کی یاترا کرنے جاتے ہیں حالات نے ثابت کر دیا کہ ہندو ذہنیت نہیں بدلی بھارتی سیکیورٹی فورس پاکستانی مسافروں کو جانوروں کی طرح گاڑی کے ڈبوں میں منتقل کر کے پاکستان بھیج رہی تھی جب آگ لگی توان پنجروں جیسی بوگیوں کے دروازے کسی صورت کھل نہ پائے اور تمام پاکستانی مسافر تڑپتے ہوئے جل کر راکھ ہوگئے ایک ایسا ہی حادثہ گجرات (بھارت) کی زمین میں بھی ہوا تھا جس میں سینکڑوں مسلمان خواتین کو بے آبرو کیا گیا اور تین ہزار مسلمان قتل کر دئیے گئے بعد میں پتہ چلا کہ گجرات ٹرین حادثہ میں انتہا پسند دہشت گرد ہندو جماعتوں کا ہاتھ تھا یہ سب کچھ اس سرزمین میں ہوا جس کا ایک سپوت نام نہاد مہاتما گاندھی اپنی فطری مکاری کے ساتھ انسانیت کا لبادہ اوڑھ کر عدم تشدد کا پر چار کرتا رہا لیکن درپردہ ہندو عورتوں کو بھی قتل و غارت گری کی تعلیم دیتا رہا جب سورت (بھارت)میں قتل عام شروع ہوا تو مسلمان اسی طلسم ہو شربا سے مسحور ہو کر اپنی عادتاً بے خبری بلکہ بے حسی کے باعث گھروں میں بند ہو کر قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے اور اللہ کے حضور دعائیں مانگتے ہوئے مسلح اور منظم ہندووں کو گولیوں چھریوں تلواروں اور برچھیوں کا لقمہ بن گئے ہندووں کی درندگی اور بربریت کا عملی ثبوت ملنے کے باوجود دنیا ہندو قوم کو نہایت امن پسند نرم رو اور صلح اور آشتی کا پیکر تصور کرتی ہے مغربی اقوام اور عرب بھائیوں کے بھی خواب و خیال میں نہیں آسکتا کہ یہ ہاتھ جوڑ کر اور پاؤں چھو کر سلام کرنے والی ہندو قوم کس قدر مظالم سنگدل اور خومخواہ ہو سکتی ہے انھیں کیا معلوم کہ عدم تشدد اور آہنسا کے بے ضرر سنہری خول کے اندر کس قدر خونریز بے رحم ستم گر سفاک اور درندہ صفت ذہنیت چھپی ہوئی ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں