جس سماج میں جرم کو معمولات کی حیثت حاصل ہوجائے اس سماج کے وجود کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا.ہمارے یہاں جس چیز نے سب سے زیادہ فروغ پایا ہے وہ جرم ہے
جرم کو اتنی سازگار فضا کہیں نہیں ملتی جتنی پاکستان میں میسر ہوتی ہے.اور یہ اس لیے ہے کہ یہاں سزا کا تصور سرے سے موجود ہی نہیں کوئی کچھ بھی کرگذرے کوئی پوچھنے والا نہیں سماج کے ہرطبقے اور ہرگروہ کے لوگ اپنی اپنی پسند کے جرائم کا ارتکاب بڑی دیدہ دلیری سے کرتے ہیں
ان کی راہ میں کوئی مانع ہے نہ کوئی مخل کسی کو جان سے ماردینا کسی کو لوٹ لینا.منشیات فروشی کرنا چوری چکاری.جیب تراشی.فراڈ یا نوسر بازی ہی جرم نہیں کہلاتی بلکہ وہ سرکاری ملازمین بھی جرم کے مرتکب ہوتے ہیں جو عوام کے پیسوں سے پوری تنخواہیں لیتے ہیں لیکن ڈیوٹی سے گریزاں رہتے ہیں
یا ڈیوٹی پر ہوکر فرائض کی ادائیگی سے کنی کتراتے ہیں ایسے وائٹ کالر لوگ معاشرے کے بڑے مجرم ہیں ایک ایسے وقت میں جب مہنگائی کے ہاتھوں مجبور معاشرہ تنزلی کی جانب گامزن ہے
جہاں بھوک بے روز گاری اور گیس بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے حوالے سے پریشان لوگ خود کشیوں پر مجبور ہیں ایسے اگر عوام کو اگر سرکاری طور پر علاج جیسی بنیادی سہولت بھی میسر نہ ہو اور سرکاری اسپتال آنے والوں کو اسپتال بند ملیں یا ڈاکٹر اور عملہ موجود نہ ہو تو لوگ کس کا ماتم کریں
کس سے فریاد کریں .میری تحریر کا محور بیول بی ایچ یو ہے جہاں عملے کا غائب رہنا اب ایک معمول بن چکا ہے.بی ایچ یو بارے معتدد شکایات سامنے آچکی ہیں کہ وہاں اسٹور انچارج اسٹور کو تالا لگا کر اسپتال سے غائب رہتا ہے جبکہ ڈاکٹر بھی زیادہ غائب ہی ہوتے ہیں
بیول اور اردگرد کے دیہاتوں سے آنے والے مریض بی ایچ یو کے تالا لگے اسٹور اور ڈاکٹر کے بغیر خالی کمرے کا دیدار کرکے مایوس لوٹ جاتے ہیں موجودہ ایم پی اے صاحب نے اپنے سابق دور حکومت میں بیول بی ایچ یو کو چوبیس گھنٹے سروس پر منتقل کیا جس کا وہ کریڈیٹ بھی لیتے رہے ہیں لیکن عملاً یہ کارنامہ صرف کاغذات کی حد تک ہی رہا یے کیونکہ ایوننگ اور نائٹ شفٹوں کے لیے اسٹاف منظور نہیں کروایا گیا
یعنی یہ کام صرف سیاسی پوائنٹ اسکورننگ کے لیے کیا گیا تھا ان صاحب کے پونے چار سالہ دور میں بی ایچ یو بیول میں کوئی ایم بی بی ایس ڈاکٹر تعینات نہیں ہوسکا اور اسپتال کو پیرامیڈیکل اسٹاف چلاتا رہا
.ان پونے چار سالوں میں بارہا اس مسلٰے کی نشاندھی کے باوجود نتیجہ ڈھاک کے تین پات اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ کی حکمرانی ہے
لیکن مسلم لیگ کے مقامی لیڈران بی ایچ یو کے معاملات پر توجہ دینے پر آمادہ نہیں البتہ وہ مخالف جماعت کے ہمددر سرکاری ملازمین کی انتقاماً ٹرانسفر میں بہت پھرتی دیکھاتے ہیں
.بیول بی ایچ یو میں ڈیوٹی چوری ایک معمول بن چکا جس پر گرفت کی ضرورت ہے
لاکھوں لوگ آج نہیں تو کل سے بہتری کی امید لگائی بیٹھے ہیں مگر وہ کل کبھی نہیں آئے گا.کیونکہ یہاں سب فضول ہیں جو نکالے وہ بھی فضول تھے جو لائے گئے وہ بھی فضول ہیں یہ سب باطل ہیں سب باطل..