columns 268

بنگلہ دیش اور پاکستان کنفڈریشن

ہمارا ملک پاکستان معاشی اور اقتصادی طور پر بہت مشکل میں ہے حالت یہ ہے کہ مہنگائی آسمان کو چھور ہی ہے غربت بڑھتی چلی جا رہی ہے

جن عوام کا نام لے کر سب کچھ کر نے کا دعوے کئے جاتے ہیں وہ خود کشیوں پر مجبور کر دئیے گئے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے اپنے جگر گوشوں کو موت کی نیند سلا رہے ہیں

اور ہم ہیں کہ اپنے سیاسی بدلے لینے کی فکر میں مبتلا ہیں کسی کو فکر نہیں کہ ملک پر قرضوں کا پہاڑ سوار ہو گیا ہے کہ اب سود کی ادائیگی کیلئے ترقیاتی فنڈز کی قربانی دنیا پڑ رہی ہے

لوٹ مار کا یہ عالم ہے کہ آئی پی پیز کے کھاتے میں اربوں روپے ادا کئے گئے اور مسلسل کئے جا رہے ہیں اس سلسلے میں یہ ہماری بد قسمتی سمجھئے کہ جو پاکستانی سر مایہ دار اسکے مالک ہیں وہ لوٹ مار کا زیادہ حصہ حاصل کر رہے ہیں اور بازوؤں میں سر دے کر خاموشی اختیار کئے ہوئے

ہی حالانکہ جب الوطنی کا تقاضاتو یہ ہے وہ اپنی لاگت سے کئی گنا یعنی بے حساب منافع کما چکے ہیں اسی طرح ملک کی اشرافیہ اور سیاستدان عوام ہی سے قربانی کی طلبگار ہے تنخواہ دار طبقے پر بوجھ بڑھنے پر کسی کو کوئی پر یشانی نہیں لیکن جس کسی دوسرے شعبے پر لگایا جاتا ہے

یا ٹیکس میں اضافہ کیا جا تا ہے تو وہ ٹیکس دینے سے انکار کر کے احتجاج کا راستہ اختیار کر لیتا ہے اس ملک کے دولت مند طبقے کو کچھ فکر ہے تو اپنے اثاثوں کی فکر ہے بڑے صنعتکار اور تاجروں کا حال یہ ہے کہ ہر روز سرمائے کی منتقلی کی دھمکی دینے اور خود پر عائد ٹیکسوں کی بات کر تے ہیں

حالانکہ یہ بہت بڑی حقیقت ہے کہ ہمارے سرمایہ داروں اور نود ولتیوؤں نے ابتداہی سے سرمایہ باہر منتقل کر نے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے حتی کہ بنگلہ دیش کے حالات سے پریشان ہونے والے ہمارے محترم ایسے بھی ہیں جن کو وہاں منتقل کر نے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے بنگلہ دیش کا ذکر آیا

تو اپنے سیاستدانوں کی ذہنی کجروی پر بھی دکھ ہوا کہ وہاں کے حالات کا حقیقی اور معروضی تجزیہ کر کے اپنے حالات کو سد ھارنے کی طرف قدم بڑھانے کے بجائے ہم حسینہ واجد کے انجام کا ذکر کرنے لگے ہیں

اور یہ بھول گئے کہ ہمارے معروضی حالات بالکل مختلف ہیں ہمارے عوامی انقلاب کی بات کرنے والے سب اقتدار کے بھوکے ہیں اور اس مقصد کے لئے اس طاقت سے رجوع کر نے کے لئے پینترے بدل رہے ہیں جسے گالیاں دیتے تھے جہاں تک ہمارے ملک کے سرمایہ داروں کا تعلق ہے کہا جاتا تھا ان کا تعلق زراعت سے تھا ان میں سے بھی اکثر بنیاء لوگوں کے مقروض تھے یہ تو اسمبلیوں کی بدولت اور محترم فیلڈ مار شل ایوب خان کی محنت سے بائیس خاندان بنے ان میں نمایاں کندھا والے تھے لیکن اب حالت یہ ہے

کہ ملک میں بائیس خاندانوں سے بڑھ کر بائیس سو خاندان بن گئے اس کے لئے کسی ریسرچ سکالر کی ضرورت ہے جو یہ تحقیق کرے کہ یہ کیسے اور کس کی لوٹ مار سے ہوا اور لکھ پتی سے کر وڑ پتی اور کروڑ پتی سے ارب پتی اور ارب پتی سے کھرب پتی بننے کی دوڑ شروع ہوئی اور جاری ہے

یہ نو دولتیا طبقہ ہی ہے جو سرمایہ ہی نہیں اپنی صنعت بھی باہر منتقل کر چکا ہے اور کرتا جا رہا ہے گالیاں عوام اور حکومت کو دیتا ہے خیرات گھر سے ہی شروع کریں اور اگر اس ملک سے ہی حاصل کر کے قربانی بھی دیں تو یہ حضرات مل کر چاہیں تو قرضوں سے نجات مل سکتی ہے

شیخ حسینہ واجد بے اپنے سولہ سالہ دور حکمرانی میں نہ صرف اپنے ہاتھ مضبوط کئے بلکہ تمام اہم عہدوں پر اپنے وفادار افراد کا تقرر کر کے خود کو محفوظ کر لیا تھا لیکن جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو وہ مٹ جا تا ہے شیخ حسینہ واجد نے جو چاہا وہی کیا انتظامیہ کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیشی عدالتیں بھی اسکے

اشاروں پر نا حتی رہیں جو بھی انکے سامنے کھڑا ہونے کی غلطی کر تا اسے منظرسے ہٹا دیا جاتا کو ٹہ سسٹم کیخلاف جب بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تو پولیس کی فائرنگ سے چار سو سے زائد افراد شہید ہوگئے ان شہادتوں کے بعد عوام اور طبقہ کا غصہ عروج پر پہنچ گیا اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ حسینہ واجد نے مظاہرین کو دہشتگردکہہ ڈالا جبکہ آرمی چیف کی جانب سے یہ مثبت بیان آیا کہ میں حکومت کے بجائے اپنے عوام کیساتھ ہوں اس طرح حسینہ واجد نہ چاہتے ہوئے بھی بھارت فرار ہو گئی

اور بنگلہ دیش میں نو بل انعا م یا فتہ ڈاکٹر محمد یونس کی قیادت ہیں عبوری حکومت قائم کر دی گئی اب اس کے بعد امید کی جا سکتی ہے کہ بنگلہ دیش عوام ذہنی طور پر پاکستان کے قریب آئیں گے اور بنگلہ دیش ایک بار پھر مشرقی پاکستان بنے گا

اور مغربی پاکستان کے ساتھ کنفڈریشن قائم ہو جائے گی پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے اسکی حمایت اور دفاعی چھتری مشرقی پاکستانی حکومت اور عوام کو بھارت کی ہندو سے بخوبی تحفظ فراہم کر سکتی ہے فطرت کا قانون انسانی سوچ اور فہم سے بالاتر ہے پھر قدرت نے کر ہ ارض اور اس دنیا میں انسان کو اختیار ودیعت کیا ہے اسے طاقت دولت بادشاہت جان وجلال میں آزماتا ہے لیکن انسان با اختیار تو ہے

مگر مطلق العنان آزاد ہر گز نہیں تاریخ گواہ ہے کہ جب با اختیار صاحب ثروت اور فوجی سپہ سالار اپنے اختیارات سے تجاوز کر جاتے ہیں اور ان کے مظالم من مایوں اور ستم ظریفیوں کی مہلت ختم ہو جاتا ہے تو اُن کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے کچھ ملکوں میں کچھ دیا رغیر اور کچھ جیل میں نشان عبرت بن جاتے ہیں

مصر کے حسن مبارک پاکستان کے پرویزمشرف وغیرہ مطلق العنان فوجی آمر صدر اس کی واضح مثالیں ہیں جس میں اب بنگلہ دیش کی جمہوری اسلامی کے قائد ین علما ے پر مظالم کے پہاڑ تو ڑے ان کو چن چن کر بے گنا ہ پھانسیوں پر لٹکا کر بھارت کی ہندو مودی سرکار اور ان کے ہمنواؤں کو خوش کر دیا

حسینہ واجد جیسی غاصب اور بے حسن وزیراعظم بنگلہ دیش کے عوام طلبا ء کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں سمجھتی تھی خصوصا جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے قائد ین بزرگاں اور علماء کو اس لئے بطور خاص نشانہ بنایا کہ 1971کی پاک بھارت جنگ میں افواج پاکستانی کا ساتھ دیا تھا

پاکستان کو ٹوٹنے دولخت ہونے سے بچانے کے لئے جماعت اسلامی کے البدر اور الشمس کے ہزاروں کا رکنوں اور قائدین نے جانی قربانیاں دی تھیں دستو رپاکستان اسلامی اصولوں کا آئینہ دار ہے

اور پوری قوم اور امت امت مسلمہ کی بہتری اور آفاقیت کا درس دیتا ہے یہی اسلامی تعلیمات کا پیغام ہے ہم قوم پر ستی پر نہیں بلکہ انسانیت کے بقائے باہمی پر یقین رکھتے ہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں