بلدیاتی الیکشن اور اس کے تحت وجود میں آنے والے اداروں میں منتخب نمائندوں کی سوچ عوام کو درپیش مقامی سطح کے مسائل کے حل کے لیے ہمیشہ مثبت رہی ہے۔اس کی بڑی وجہ منتخب نمائندوں کا اسی علاقے سے تعلق کا ہونا ہے۔مقامی ہونے کے ناطے بلدیاتی نمائندوں کو روزانہ اپنے ووٹرز‘ سپورٹرزکا سامنا کرنا ہوتا ہے جس کے باعث ان کو مسائل پر توجہ دینا ان ممبرز کی مجبوری بن جاتی ہے۔بلدیاتی میں نظام سو فیصد نہ سہی چالیس پچاس فیصد ہی سہی مسائل میں ریلیف ضرور ملتا ہے۔گلیوں‘نالیوں اور صفائی کے نظام پر توجہ ضرور دی جاتی ہے علاقہ مکین کسی رکاوٹ کے بغیر ان تک رسائی پاتے ہیں۔لیکن ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ یہاں سویلین حکومتیں بلدیاتی نظام کے حوالے سے کبھی سنجیدہ نہیں رہیں۔کیونکہ بلدیاتی نظام ممبران قومی وصوبائی اسمبلی کی چودراہٹ میں رکاوٹ بنتا ہے عوام کی بنیادی مسائل بلدیاتی نظام سے جڑے ہونے کے باعث عوام کا رجحان منتخب بلدیاتی نمائندوں کی جانب ہی رہتا ہے جس سے اراکین قومی وصوبائی اسمبلی کی انا پرستی کو ٹھیس پہنچتی ہے۔حالانکہ گلیاں اور نالیاں بنوانا ان اراکین کا معیار تو نہیں لیکن کیا کریں خود نمائی اور اناپرستی کے تحت الٹی گنگا بہا رہی ہے۔قانون سازاسمبلیوں کے منتخب اراکین یہ خواہش رکھتے ہیں کہ لوگ نالیوں گلیوں کی تعمیر ومرمت کے لیے بھی ان کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوتے رہیں سابق ن لیگی حکومت میں بھی بلدیاتی الیکشن سپریم کورٹ کے حکم پر کروائے گئے تھے عوامی مفاد میں نہیں۔موجودہ حکومت نے بھی برسراقتدار آتے ہی پہلا وار ان ہی اداروں پر کیا جن سے عوام کو قدرے ریلیف مہیا کیا جارہا تھا۔وجہ صرف یہ تھی کہ ان اداروں میں موجودہ حکومت کی مخالف جماعت کی اکثریت تھی جو ہماری سیاسی جماعتوں کو قطعی قبول نہیں ہوتا۔عدالتوں کے بار بار احکامات کے باوجود بزدار حکومت بلدیاتی اداروں کی بحالی کا نوٹیفکیشن سے گریزاں ہے وقت گزارا جارہا ہے۔اب نئے بلدیاتی الیکشن کروانے کا اعلان سامنے آیا ہے جس کے بعد سیاسی جماعتوں سے وابسطہ افراد بھی متحرک دیکھائی دیتے ہیں۔ بیول یونین کونسل کے لیے ن لیگ‘پیپلزپارٹی تحریک انصاف کے علاوہ تحریک لبیک کے لوگ بھی انتخابی دنگل کی تیاری کر رہے ہیں۔ن لیگ کے سابق کونسلر چوہدری خورشید ایڈوکیٹ‘چوہدری ضیارب‘ نوجوان مسلم لیگی وسیم عباس‘محمد حسیب نواز وارثی سابق الیکشن میں نو دس ووٹوں سے شکست کھانے والے چوہدری عمران الیکشن لڑ سکتے ہیں۔جبکہ ن لیگ کے تحصیل صدر چوہدری مزمل کے قریبی ساتھی چوہدری وحید آف ڈھیری یوسی بیول کے لیے چیئرمین شپ کے متوقع امیدوار ہیں حکمران جماعت تحریک انصاف کے لیے یوسی کے سینئر نائب صدر حاجی محمد اشرف بھیچیئرمین شپ کے امیدوار کے طور سامنے آسکتے ہیں جو اپنی جماعت کے برسراقتدار ہونے اور بڑے بھائی حاجی اسلم کی سیاسی وسماجی مقبولیت کے ساتھ ایک مضبوط امیدوار قرار دئیے جاسکتے ہیں۔ان کے بھتیجے آفتاب اسلم بھی امیدوار ہوسکتے ہیں لیکن اس کا فیصلہ حاجی اسلم کریں گے۔پیپلزپارٹی یوسی بیول کے صدر حافظ عمران منظور کے مطابق پیپلز پارٹی اس بار اپنے امیدوار ضرور دے گی۔اور اگرسابق وزیراعظم پرویزاشرف نے کہا تو وہ خود بھی
الیکشن لڑ سکتے ہیں جبکہ سنیئر نائب صدر مرزا خورشید بھی پیپلز پارٹی کے ممکنہ امیدواران میں شامل ہیں۔تحریک لبیک کی جانب سے حسیب خالد‘سنی راجہ‘ زاہد اقبال وارثی کے بھائی محمد شاہد وارثی پارٹی کی جانب سے امیدوار ہوسکتے ہیں۔ڈھیرہ کنیال کے لیے تحریک انصاف کے سابق کونسلر ملک افضل اور یوسی کے سنیئر نائب صدر حاجی محمد اشرف کے حمایت یافتہ عمران بلوچ کے نام سامنے آئے ہیں ملک افضل پارٹی کے لیے مضبوط امیدوار ہو سکتے ہیں سابق چیئرمین یوسی بیول نمبردار عباس اور وائس چیئرمین مرزا منیر کی طرف سے فل حال خاموشی ہے جبکہ منجوٹھ سے سابق جنرل کونسلر شہزاد بھٹی اور موضعگولین سے سابق جنرل کونسلر چوہدری شکیل باقاعدہ الیکشن لڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔اس وقت ن لیگ دیگر جماعتوں کی نسبت زیادہ مسائل کا شکار ہے۔گوجرخان میں پارٹی واضح دھڑے بندی کا شکار ہے جس کا فائدہ مخالف جماعتوں کو ہوگا۔تحریک لبیک کا گراونڈ میں اترنا بھی ن لیگ کے لیے نقصان کا باعث ہوگا۔لبیک کوئی معرکہ سر نہ بھی کرے ن لیگ کی شکست کا باعث ضرور بن سکتی ہے۔ن لیگ کے سابق ایم پی اے چوہدری افتخار احمد وارثی کی جانب سے اس سلسلے میں مکمل خاموشی ہے۔ان کی سیاسی ایکٹویٹی نہ ہونے کے برابر ہے اگر وہ الیکشن سے لاتعلق رہے تو ن لیگ کی مشکلات مزید بڑھ سکتی ہیں۔ اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ آمدہ بلدیاتی الیکشن غیر جماعتی بنیادوں پر کروائے جانے کا امکان ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو حکمران جماعت کی جانب سے جو جیتا وہ ہمارا کا مقولہ اپنایا جائے گا کیونکہ حکمران جماعت ہونے کے ناطے جیتنے والے افراد کو پارٹی میں سمولینا بہت آسان عمل ہوگا۔
214