پنجاب میں شیڈول کے مطابق30جنوری کو بلدیاتی الیکشن کا انعقاد پذیر ہونے تھے کہ {jcomments on}اچانک لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب بھر میں حلقہ بندیوں کوکالعدم قرار دیااور پنجاب حکومت نے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع نہ کرنے کا بھی پیغام دیدیا
جس کی بناء پر الیکشن ایک مرتبہ پھر کھٹائی میں جاتے ہوئے نظر آرہے ہیں پنجاب کی صوبائی حکومت پہلے دن سے ہی الیکشن کروانے کے حق میں نظر آرہی تھی سپریم کورٹ کے بلدیاتی الیکشن کروانے کے حکم پر پنجا ب بھر میں حلقہ بندیاں کرنے کا کام شروع ہوا تو اس عجلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے
بعض مقامات پر سیاسی مخالفین کو کمزور کرنے کے لیے برسراقتدار ممبران قومی وصوبائی اسمبلیوں میں حلقہ بندیاں بھی کروائیں گئیں لیکن ضلع راولپنڈی سے منتخب ایم این اے اوروفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے تحصیل کلرسیداں میں مخالفین کو شکست دلوانے کی بجائے عوامی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پہاڑی علاقوں پر مشتمل چھ نئی یونین کونسلوں کا اضافہ کروانے میں بھرپور معاونت کی لیکن بلدیاتی ایکٹ کومکمل طور پر پسِ پشت رکھا گیا
جس کے مطابق نئی یونین کونسل کے قیام کے لیے 1998ء کی مردم شماری کے تحت شہری آبادی میں بیس اور دیہات کی دس ہزار کی آباد ی ہوناضروری تھا لیکن کلرسیداں کی نئی بننے والی یونین کونسلوں میں بھلاکھر کی آبادی 5720،دوبیرن کلاں کی 6874،دھمالی کی 6522،کنوہاکی 7275،ٹکال کی 8121،چوآخالصہ کی 7965،منیاندہ کی 8531،بناہل پنڈوڑہ ہردوکی 7716،سموٹ کی 9391،سکوٹ کی 8204 ہے جن کو سیاسی مداخلت پر بنادیا گیا لیکن بعد ازاں ایک شہری کی درخواست پر ہائی کورٹ لاہور راولپنڈی بینچ نے یوسی بناہل کے نوٹیفیکشن کو معطل کردیا تھا اسطرح دوسری یونین کونسلوں کا وجود بھی خطرے میں پڑ گیا تھا
اسطر ح کی ہونیوالی حلقہ بندیوں اور وارڈ بندیوں کے خلاف پنجاب بھر سے چار سو سے زائد کیس سامنے آئے ہیں جوکہ کورٹ میں زیر سماعت ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے ہائی کورٹ نے حلقہ بندیوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کالعدم کردیا اور ساتھ ہی الیکشن کمیشن کو بروقت الیکشن کروانے کا بھی حکم صادر کیا ہے چونکہ صوبائی حکومت پہلے سے ہی ٹال مٹول سے کام لے رہ تھی اور اب اس کو حلقہ بندیاں کو نئے سرے سے مکمل کروانے کا بھی جواز مل گیا ہے جس سے الیکشن کے بروقت ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں جبکہ پورے صوبے میں بلدیاتی الیکشن کی تیاریاں عروج پر ہیں امیدوارگزشتہ تین ماہ سے جاری انتخابی مہم میں بھاری اخراجات کر چکے ہیں
اور اب اگر حکومت حلقہ بندیوں کا جواز بنا کر مزید وقت لینے کا مطالبہ یا پھر چھ ماہ یا ایک سال تک اس کا التواء چاہتی ہے تو پھر بلدیاتی امیدوارں کی کمر ٹو ٹ جائے گی چونکہ امیدواراپنا کاروبار اور معاملات زندگی کو پس پشت ڈال کر انتخابی مہم چلارہے ہیں اور اب ان میں مذید اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہیں رہی ہے اگر مذید التواء کا شکار ہوتے ہیں توامیدوار ن لیگ کے گلے کی ہڈی ثابت ہوسکتے ہیں سیاسی جماعتوں نے پہلے سے ہی موجودہ حکومت کی سات ماہ کارکردگی کو جواز بنا کر مہنگائی کے خلاف جلسے اور ریلیاں نکالنی شروع کردیں ہیں
اور اب الیکشن نہ ہونے کی صورت میں اسے حکومت کی ناکامی کا جواز بنا کر مذید تقویت دینگے جس سے پنجاب حکومت کے مسائل میں آئے رو ز اضافہ ہوتا چلا جائے گا اگر بلوچستان میں دہشت گردی اور حالات خراب ہونے کے باوجود سپریم کورٹ کے حکم کو بجالاتے ہوئے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بلدیاتی انتخابات کروادئیے ہیں تو دیگر صوبائی حکومتوں کوالیکشن سے خائف نہیں ہونا چاہیے چونکہ بلدیاتی الیکشن جمہوریت کی نرسری تصور کی جاتی ہیں ،ہمارے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی اپنے سیاسی کیرئیر کاآغاز 1979ء میں ہونے والی بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیکرکیاجب ممبر ضلعی کونسل راولپنڈی منتخب ہوئے تھے اور آج تک وزیر داخلہ بننے تک کامیابی ان کے قدم چومتی رہی ہے
لیکن آج وہ بھی پنجاب میں ہونیوالے والے بلدیاتی انتخابات کے التواء کے بارے میں کوئی بیان جاری کرنے سے قاصرہیں ماضی میں بھی اگر دیکھائے جائے تو جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعتوں نے بلدیاتی انتخابات کروانے کیلئے کماحقہ اقدامات کرنے اورسنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ بلدیاتی نمائندوں سے خائف ہی رہی ہیں ملک میں جاری جمہوری حکومتوں کو ہٹا کر اقتدار پر قبضہ کرنے والوں نے ہی جمہوریت کی نرسری بلدیات کو پروان چڑھایا ہے جنرل مشرف نے اپنے دور اقتدار میں دو مرتبہ لولکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت بلدیاتی انتخابات کروائے لیکن انکے بعد جمہوریت کے ذریعے سے برسراقتدار آنے والی پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں بلدیات کی جانب کوئی توجہ نہ دی اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کو جاری رکھا
اور اب موجودہ حکومت بھی سپریم کورٹ کے واضع احکامات کے باوجود اسی ڈگر پر چل رہی ہے چونکہ عوام کی ووٹوں کی منتخب ہونیوالے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کی بنیادی کام قانون ساز کرنا ہوتا ہے لیکن قیامِ پاکستان سے اب تک مذکورہ ممبران قانون سازی کے ساتھ ساتھ بلدیات کو بھی سنبھالے ہوئے ہیں اس لیے وہ کبھی نہیں چاہتے کہ بلدیاتی انتخابات کے تحت سامنے آنے والے منتخب عوامی نمائندے انکے آڑے آئیں پنجاب میں انتخابات جماعتی بنیادوں پر انعقاد پذیر ہونے جارہے تھے
کاغذات نامزدگی جمع ہونے تک ن لیگ نے اپنے امیدواروں کے ٹکٹ کا اعلان نہ کیا چوہدری نثار کے اپنے حلقہءِ انتخاب روات کلرسیداں اور چونترہ کی یونین کونسلوں سے حصہ لینے والے ن لیگ سے تعلق رکھنے والے بلدیاتی امیدواروں کو بھی ٹکٹ جاری کرنے کی کوئی کمیٹی تشکیل نہ دی ہے جس کی بناء پرن لیگ کے ٹکٹ کے خواہشمند امیدواروں کی بے چینی میں بھی آئے روز اضافہ ہوتا چلاجارہا ہے جس یہ بات عیاں ہورہی ہے کہ ن لیگ الیکشن سے راہ فرار چاہتی ہے اب چونکہ پنجاب بھر میں الیکشن کا ماحول بن گیا ہے لہذا حکومت کو مزید وقت ضائع کرنے کی بجائے الیکشن کے جلد از جلد انعقاد کیلئے مثبت اقدامات کرنے چاہیءں
عبدالخطیب چوہدری روات03005256781