99

اے سی بس سروس‘ شُتر بے مہار کو نکیل کون ڈالے گا

شہباز رشید چوہدری ‘نمائندہ پنڈی پوسٹ
کلرسیداں تا راجہ بازار اے سی بس سروس مسافروں کے لیے وبال بن گئی ہے مسافروں سے بدتمیزی لوکل سواری کو بس سے اتارنا اور اوور لوڈنگ تو آئے روز کا معمول بن چکا ہے ۔ٹریفک عملہ اور آرٹی اے کے افسران کو شکایات کے باوجود کوئی کاروائی نہیں کی جاتی ہے بلکہ عوام کو یہ کہہ کر ٹال دیا جاتاہے کہ یہ تو چوہدری نثار علی خان کی گاڑیا ں ہیں ہم ان کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے ۔گزشتہ دنوں ایک بس سے ٹکرا کر چوکپنڈوری کا تاجر بری طرح زخمی ہو گیا جس کی ٹانگ اور بازو کی ہڈیاں تک ٹوٹ گئیں اور ستم ظریفی یہ کہ بس ڈرائیور نے زخمی تاجر کوہسپتال پہنچانے کے بجائے گاڑی بھگا دی اور جب اہل خانہ نے پولیس تھانہ کلرسیداں کی چوکپنڈوری چوکی پر تحریری درخواست میں ڈرائیور کے خلاف مقدمہ درج کرانے کی کوشش کی تو اُن کی دادرسی کے بجائے کہ کہا گیا کہ یہ سرکاری گاڑیاں ہیں ہم کچھ نہیں کر سکتے اس ٹرانسپورٹ کے چلانے کا پس منظر دیکھا جائے تو معلوم یہ ہو تا ہے کہ کلرسیداں تا پیر و دھائی بس سروس اور ہائی ایس سروس کے مالکان اور عملہ کی چیرہ دستیوں اور آئے روز کے جھگڑوں سے تنگ آکر کلرسیداں کے ایک نوجوان نے کھلی کچہری میں چوہدری نثار علی خان سے اے سی بس سروس کے اجر ا کی استدعا کی تھی جس پر فوری عمل ہوا اور چند پرائیویٹ ٹرانسپوٹرز کی معاونت سے یہ سلسلہ شروع کیا گیا جس پر شروع شروع میں تو عوام بہت خوش تھے مگر ان روائتی کاروباری لوگوں نے اپنا خول اتار دیا ہے اور اپنے کارندوں کے ذریعے مسافروں کو خوار کیا جا رہا ہے ۔دوسری طرف یہ پرائیویٹ مالکان چوہدری نثار علی خان کے نام کی چھتری تانے ہوئے ہیں جس میں عام آدمی یہ سمجھ رہا ہے کہ یہ سرکاری ٹرانسپورٹ ہے جس کے خلاف نہ تو کوئی ٹریفک اہلکار کاروائی کر سکتا ہے اور نہ ہی آر ٹی اے کا عملہ بلکہ ان کی جانب سے ٹریفک پولیس اور سیکرٹری آر ٹی اے کو مبینہ بھاری نذرانے کی وصولی کی باتیں بھی زبان زد عام ہیں۔ چوہدری نثار علی خان کے حکم پر چو آخالصہ تا راولپنڈی بس سروس کا اجرا بھی کی گیا ۔مگر چند دنوں بعد اس کو بند کر دیا گیا ۔معزز قارئین اس بس سروس کو چلانے کا مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ کلرسیداں کے عوام کو عرصہ دراز سے ایک مخصوص ٹولے اور سفری مشکلات سے نجات دلائی جائے ۔مگر یہاں تو دن لمبے ہو گئے اور آواز وہی انداز نیا کے مصداق ائیر کنڈیشنز گاڑیاں تو چلا دی گئیں مگر عوام کو نئی گاڑیوں کے ساتھ بنارسی ٹھگ بھی ٹکر گئے جو مسافروں کو بھیڑ بکریوں کی طرح لوڈ کرنے اور بد تمیزی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور تو اور اب تو انتہا ہو گئی کہ انہیں تو لائسنس ٹوکل (license to kill) بھی مل گیا اب جو چاہے کریں کلرسیداں تا راولپنڈی کوئی پوچھنے والا نہیں ۔چوہدری نثار علی خان واقع کااز خود فوری نوٹس لیتے ہوئے عوام کی سہولت کی خاطر چلائی جانے والی ٹرانسپورٹ کے مالکان اور ان کی پشت پناہی کرنے والے ٹریفک انچارج کلرسیداں اور سیکرٹری ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی راولپنڈی کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے اپنے حلقہ کے عوام کی داد رسی کریں اور اس شُتر بے مہار کو نکیل ڈال کر رکھ اجائے تاکہ عوام کی مشکلات کم ہو سکیں نہ کہ ان میں آئے روز اضافہ دیکھنے کو ملے یاد رہے کہ ضلع راولپنڈی میں اپنی نوعیت کی یہ واحد ٹرانسپورٹ ہے جس کو اوور لوڈنگ کی باقاعدہ اجازت دی گئی ہے جو کہ قانون کے ساتھ کھلا مذاق ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کی جانب سے عوام کی سہولت کے لیے کلرسیداں تا روات سڑک کے دونوں اطراف میں بس سٹاپ پر مسافروں کے لیے انتظار گاہیں بھی تعمیر کروائی جائیں ۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں