وطن عزیز میں جب سے پولیس کامحکمہ بنا ہے اس میں سیاسی مداخلت کا ایسابیج بویا جا چکا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک تناور درخت بن چکا ہے محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت آج بھی زور شور اور دھڑ لے سے جاری وساری ہے
جس کی وجہ سے ہماری پولیس سروس ایک پروفیشنل فورس نہ بن سکی میں دعوے سے کہ سکتا ہوں کہ اگر وطن عزیز میں محکمہ پولیس کو آزاد اور خودمختار بنا دیا جاتا اور اس میں سیاسی مداخلت نہ کی جاتی تو آج یہ ادارہ افواج پاکستان کی طرح ایک مضبوط ترین ادارہ ہوتا یوں تو وطن عزیز کی تاریخ کا ہر پہلو ہی افسوس ناک ہے لیکن پولیس کی تاریخ اس سے زیادہ افسوس ناک ہی رہی ہے آج بھی ایف آئی آر رشوت کے بغیرممکن نہیں شہریوں
کے خلاف جھوٹے مقدمات اور انہیں ٹارچر سیل میں رکھنا ہماری پولیس کا خاصہ ہے
پولیس کے زیر حراست افراد کو تشدد کا نشانہ بنوانا ہماری سیاسی مداخلت کا منہ بولتا ثبوت ہے لوگوں کو پولیس مقابلہ کے نام پر قتل کردینا بھی عام بن چکا ہے سیاسی مداخلت کا سب سے اہم ایشو یہ ہے کہ محکمہ پولیس کے اندر احتساب کا کوئی نظام نہیں ہے کوئی بھی پولیس والا جو چاہے کر گزرے کوئی طاقت اسے نہیں پوچھ سکتی اسکی بڑی مثال راو انوار جیسے متعدد کردار ہمارے پولیس کے نظام پر کلنک کا داغ بن چکے ہیں وطن عزیز میں قانون کی طاقت کے بجائے طاقت کا قانون رائج ہے جو جتنا بااثر ہے اتنا ہی وہ پولیس پر اپنا اثر ڈال کر لوگوں کو انتقام کا نشانہ بناتا ہے
اور اپنے مفادات کیلئے پولیس کو استعمال کرتا ہے۔ آج بھی اگر پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں تحریک انصاف مسلم لیگ نون اور پی پی پی کے منشوروں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں پولیس اصلاحات کے بارے میں بلند بانگ دعوے نظر آتے ہیں لیکن عملی طور پر انکا کام صفر سے آگے نہیں ن لیگ تقریباً پانچ مرتبہ حکومت میں رہ چکی لیکن ماسوائے یونیفارم تبدیلی کے کچھ زیادہ سامنے نہ آسکا چند روز وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف نے ایک ایم پی اے کے ہاتھوں ایک باوردی اے ایس آئی کو آفس بلا کر اس نظام کو مزید ننگا کیا
لیکن صد افسوس نظام کی تبدیلی کا کوئی اعلان نہ ہوسکااس واقع کے چند روز بعد راولپنڈی کے تھانہ روات میں مسلم لیگ ن کے حالیہ منتخب MPAپی پی 9شوکت بھٹی نے اپنی سیاسی دھاک بٹھانے کے لیے تھانہ روات کا پورا عملہ ہی تبدیل کرواڈالا اور اس بات کا ببانگ دل اعتراف بھی کیا کہ اتنی بڑی کامیابی کا سہرا میرے سر ہے موصوف MPAشوکت عزیز بھٹی نے یہ دعوی کیا کہ تھانہ روات میں تعینات عملہ پولیس اختیارات سے مبینہ تجاوز، رشوت، اقرباء پروری کے معاملات جیسے معاملات میں ملوث
ہے جسے میں نے انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس کے سامنے رکھا ہے
جس پر انہوں نے کارروائی کرتے ہوئے عملہ تبدیل کیا ویسے مزے کی بات ہے کہ اگر عملہ کرپٹ تھا یاوہ تمام الزامات
جن کا زکر ہوا میں ملوث تھا تو پھر انکی جو جزا سزا بنتی ہے وہ ملنی چاہیے تھی یہ تبدیلی بھلا کیا معنی رکھتی ہے ذرائع یہ دعوی کرتے ہیں کہ سابق کونسلر کے عزیز کو بلاجواز اٹھانے اور چھوڑنے کے عوض مبینہ طور پر 02 لاکھ روپے رشوت طلب کرنے کی شکایات پر MPAشوکت عزیز بھٹی نے آئی جی پنجاب کواپروچ کیا لیکن دوسری طرف تھانہ روات کے ذرائع یہ دعوی کرتے ہیں کہ مقامی پولیس کی جانب سے MPAکو بعض معاملات پر کی گئی سفارش کو روات پولیس کے کچھ افسران کی جانب سے سرد مہری دکھائی گئی جس پر MPA موصوف کا پارا ہائی ہوا
اور انہوں نے سیاسی اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے اہلکاروں کے تبادلے کروائے جبکہ SSPآپریشن کے حوالہ سے سوشل میڈیا پر جاری بیانات میں یہ دعوی کیا گیا کہ جن جن تھانوں میں اہکاروں کو چھ چھ ماہ سے زائد عرصہ ہوا انہیں تبدیل کیا گیا ہے راقم نے اس حوالہ سے جب راولپنڈی پولیس ترجمان نے بات کی تو انہوں نے بھی کسی بھی قسم کی سیاسی مداخلت کی مکمل نفی کرتے ہوئے تھانہ روات سے اہلکاروں کے تبادلوں کو ایس او پی تحت معمول کی محکمانہ کارروائی کا حصہ قرار دیاکیا
کرپشن کی سزا تبادلہ ہے یا کچھ اور راولپنڈی پولیس افسران بھی مصلحت کا شکار ہوئے جس پر ایک MPAنے پورا تھانہ ان کے مرہون منت ہوگیا ہے شوکت بھٹی پولیس کے معاملات میں مداخلت کے حوالہ سے ویسے بھی ایک شہرت رکھتے ہیں تھانہ روات کیا راولپنڈی کے جتنے بھی تھانے ہیں موصوف کے کارخاصوں کے فون سنتے ہیں ہر جائز ناجائز کام کرنے کو تیارہونگے کیونکہ تبادلے کانام سنتے ہی پاؤں پکڑ نے والے آفیسرز نے پولیس کا مورال ڈاؤن کیا ہے
اور جب تک ایسے افسران موجود رہینگے محکمہ پولیس کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان رہے گا اور اسطرح کے کئی MPAاپنی من مرضی کے افسران کو تعنیات کرواتے رہینگے اور فون کال پر نظام پولیس زلزلہ کی کیفیت کا شکار رہیگا اور جب IG لیول کے افسران جو کچے کے ڈاکووں کے ہاتھوں یرغمال بن کر بھی صدارتی ایوارڈ وصول کرینگے تو پولیس میں سیاسی مداخلت کا خاتمہ۔کیسے ہوگا اللہ میرے وطن عزیز کے عوام پر اپنا فضل کرم رکھے